پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
تحریر:سید سرفراز احمد،بھینسہ تلنگانہ
اس وقت ملک میں ہر طرف فغاں کا ماحول برپا ہے یہ فسطائی طاقتوں کی ہی دین ہے کہ ہمارا ملک انارکی کی راہ اختیار کرچکا ہے مسلمانوں کےتیئں ایک خبر تھمتی بھی نہیں کہ دوسری خبر اس کی جگہ لے لیتی ہے جس رفتار سے مسلمانوں کے لئے یہ زمین تنگ کی جارہی ہے اس سے یہ صاف ہوچکا ہے کہ فسطائی طاقتیں اس ملک پر غلبہ پانے کی پوری تیاری کر رکھی ہے اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ تیاری دس سال قبل کی نہیں ہے بلکہ یہ تیاری ایک صدی قبل کی ہے جس کے ثمرات وہ آج لینا چاہتے ہیں ہاں یہ حقیقت ہے کہ دس سال سے جس تیزی سے وہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں اس رفتار کو دیکھ کر یہی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اب اسی دس سال بعد وہ اپنے ایجنڈے میں مزید تیزی لانا چاہتے ہیں قبل اس کے کہ ان کے ہاتھوں سے اقتدار کی ڈور نکل جائے۔
اس بار لوک سبھا انتخابات اور نتائج کے بعد جس طرح سے این ڈی اے کی سرکار برسر اقتدار پر آئی اور ہم سب کا یہ گمان تھا کہ دو بیساکھی پر چلنے والی سرکار ہر قدم پھونک پھونک کر رکھے گی لیکن ابھی تک ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ اس بار کا منظر نامہ کچھ الگ دکھائی دے رہا ہے لگ تو یہی رہا ہے کہ اس پر فسطائیت نے بڑے ہی شاطرانہ طریقے سے اپنے کرنے کے کاموں کا طریقہ بدل دیا ہے یعنی بھاجپا سرکار نے شائد اپنی حکمرانی والی ریاستوں کو پوری آزادی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی اپنی ریاستوں میں بڑے بڑے فیصلے لیتے ہوئے مسلمانوں کو نشانے پر رکھیں ہمیں اس فرق کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جو کام سازشوں کے تحت مرکزی سطح سے ہوتا ہے اس کی بیک آواز ملکی سطح پر اٹھ سکتی ہے جیسے کہ وقف کی مثال لی جائے تو اس بل کی مخالفت میں پورے ملک کا مسلمان زور و شور سے حصہ لے رہا ہے۔
اور جو کام سازشوں کے تحت علاقائی سطح پر ہوتا ہے اس کا شور و غل کم ہوتا ہے ہر اٹھنے والی آواز کو دبا دیا جاتا ہے جس سے ایک منظم دفاعی طاقت بن نے سے قاصر رہ جاتی ہے مثال کے طور پر آسام میں ایک ہفتہ قبل 28 افراد کو حراستی کیمپ (ڈیٹینشن کیمپ)میں ڈال دیا مسلمانوں کے شادی ایکٹ بل میں تبدیلی کا قانون لایا گیا جس سے اب قاضی کے پاس موجود اختیارات چھین لیئے گئے اب نئے آدھار کارڈ کے لیئے این آر سی درخواست نمبر کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہماچل پردیش میں شملہ کے سنجولی کی مسجد کی غیر قانونی تعمیر کا الزام لگاکراکثریتی فرقے کا احتجاج ہورہا ہےیو پی میں مولانا کلیم صدیقی مولانا گوتم عمر سمیت 14 افراد کو جبراً تبدیلی مذہب کے جرم میں سلاسل پابند کردیا گیا تلنگانہ میں آصف آباد ضلع کے جینور میں منصوبہ بند طریقے سے تشدد برپا کیا ہے حالیہ چار روز قبل ضلع نرمل کے قریب رام پور پر بھینسہ کے دو مسلم نوجوانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا مہاراشٹر میں بھاجپا رکن اسمبلی نتیش رانے مسلمانوں کو مساجد میں گھس کر مارنے کی کھلے عام دھمکی دی مدھیہ پردیش میں شان رسالت کی گستاخی میں پر امن احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کردیا گیا اور سڑک پر گشت کرواتے ہوئے پولیس ہمارا باپ ہے کے نعرے لگانے پر بھی مجبور کیا گیا۔
بنگال میں ڈاکٹر مومیتا کے واقعہ کو ملک گیر سطح کا مسلئہ بنایا میڈیا نے بھی اس واقعہ کو خوب چلایا شائد اسی لیئے کہ وہاں بھاجپا سرکار نہیں ہےحالانکہ اس سے بدترین درندگی والامعاملہ بھاجپا کے اتراکھنڈ میں تسلیم جہاں کے ساتھ پیش آیا لیکن اس معاملہ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا نہ ہی گودی میڈیا اس واقعہ کو منظر عام پر لانا چاہا نہ ہی اپوزیشن، کیا اسی لیئے اس تسلیم جہاں کے معاملہ کو برف کی نذر کردیا گیا کہ وہ مسلمان ہے ؟یا پھر اس لیئے کہ وہاں بھاجپا سرکار ہے؟لیکن حزب اختلاف کے لیئے یہ معاملہ کیا تھا یہ ابھی تک سمجھ سے باہر ہے وہیں گجرات کے صورت میں گنیش مورتی پر پتھر پھینکنے کے جرم میں تین افراد کو مجرم بتاکر پولیس نے تیس مسلمانوں کو گھروں میں گھس کر نکالا اور اتنا پیٹا کہ وہ ٹھیک سے سنبھل بھی نہیں پارہے تھے عتاب تو یہ بھی تھا کہ ان کے مکانات پر بلڈوزر چلادیا گیااس کرونولوجی کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ مرکزی سطح پر ہو یا ریاستی سطح پر کسی بھی معاملہ کو جب بھاجپا اٹھانا چاہتی ہے تو وہ ملک گیر معاملہ بھی بن جاتا ہے اور گودی میڈیا تو ایسے خوابوں کی تکمیل کے لیئے ہی کام پر لگا ہوا ہے
عباس دانا نے کیا خوب کہا ہے
تعجب کچھ نہیں داناؔ جو بازار سیاست میں
قلم بک جائیں تو سچ بات لکھنا چھوڑ دیتے ہیں
ملک میں اس وقت بد امنی کی لہر چل رہی ہے ملک کی کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں امن و سکون قائم ہے خصوصیت کے ساتھ ایسی ریاستیں جہاں بھاجپا ڈبل انجن سرکار میں ہے ان ریاستوں پر ہر دن کوئی نہ کوئی بجلی مسلمانوں پر گرائی جارہی ہے اب تو کانگریس سرکار کی ریاستیں بھی ان سازشوں سے محفوظ نہیں رہی ہے ویسے تو اب اس ملک میں ہنگامے برپا ہونا روز کا معمول بن چکا ہے لیکن ہم تین اہم نکات پر بات کریں گے اول یہ کہ آسام حکومت اور وہاں کے وزیر اعلی شائد تعصبیت کے اولین مقام پر پہنچنا چاہتے ہیں اسی لیئے ایک بار پھر این آر سی پرکاروائی کرتے ہوئے 28 بنگالی نژاد مسلمانوں جن میں 19 خواتین اور 9 مرد کو حراستی کیمپ منتقل کردیا گیا میڈیا ریورٹس کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں ایک ہی خاندان کے کچھ افراد کوغیر ملکی قرار دیتے ہوئے حراستی کیمپ بھیجا گیا اور کچھ افراد پر یہ کاروائی نہیں ہوئی کیا یہ تضاد نہیں کہ ایک ہی خاندان کے آدھے افراد غیر ملکی اور آدھے افراد ملکی قرار دیئے جائیں؟ اصل بات یہ بھی ہے کہ آسام میں این آر سی کے ریکارڈ میں جب یہ بات سامنے آچکی تھی کہ آسام میں بنگالی نژاد ہندو افراد کی تعداد مسلمانوں سے دوگنا ذیادہ ہے تو ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آسام حکومت نے کتنے ہندوؤں کو حراستی کیمپ بھیجا ہے؟
شائد ہی کسی کو بھیجا ہو چونکہ حکمرانوں کے ہوش فاختہ تب ہی تو ہوئے تھے جب آسام میں این آر سی کے بعد پتہ چلا کہ بنگالی نژاد میں اکثریت ہندوؤں کی ہے تو فوری حکمرانوں نے حرکت میں آتے ہوئے سی اے اے کا شوشہ چھوڑا تاکہ بنگالی نژاد ہندوؤں کو شہریت دے کر اپنا ووٹ بینک مضبوط اور محفوظ بنایا جاسکے مختلیف میڈیا رپورٹس کے مطالعے سے پتہ چل رہا ہے کہ جن مسلمانوں کو حراستی کیمپ بھیجا جارہا ہے ان کی دستاویزات میں صرف معمولی غلطیا رہی ہے اگر ملک بھر سے ایسے معمولی غلطیوں والے معاملات نکالیں جائیں تو شائد ہی کوئی ملک میں باقی رہ جائے جس بنیاد پر بنگالی نژاد مسلمانوں کو حراستی کیمپ بھیجا جارہا ہے جو ایک غیر انسانی رویہ تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے جن کا مقصد صرف اور صرف سازش کے طور مسلمانوں کو نشانے پر رکھنا ہے۔
فارنر ٹربیونل اور آسام حکومت فوری ان افراد کو حراستی کیمپ سے آزاد کرنا چاہیئے ورنہ کیا پتہ آنے والے کل میں لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زد میں کے مترادف ہوسکتا ہے چونکہ ایسا ملک میں ہورہا ہے دوسرا اہم نکتہ مولانا کلیم صدیقی مولانا عمر گوتم سمیت دیگر دس افرا کو اترپردیش کی ایک نچلی عدالت نےعمر قید کی سزا سناکر پابند سلاسل کردیا اور اسی طرح دیگر چار افراد کو دس سال قید کی سزا سنائی اس سے قبل 2021 اسی ماہ ستمبر میں اترپردیش کی اے ٹی ایس نے جبری تبدیلی مذہب کے جرم میں مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کرلیا تھا جب کہ اس سے قبل عمر گوتم و دیگر کو گرفتار کیا گیا تھا پھر 3/مئی 2023 کو مولانا کلیم صدیقی کو ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔
یہاں صرف دو تین باتیں عرض کرنی ہے کہ ایک تو اسلام اس بات کی قطعی بھی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی دوسرے مذہب کے افراد کو جبراً اسلام میں لایا جائے دوسری بات اس طرح اسلامی تعلیمات کی مخالف سرگرمیوں کو انجام دینا ایک عالم دین تو بہت دور کی بات ہے ایک عام فرد بھی ایسا نہیں کرسکتا تیسری بات جو دستور نے اپنے اپنے مذہب پر چلنے اور اس کا پرچار کرنے کی پوری اجازت دیتا ہے تو سوال یہ ہے کہ کوئی بھی جبراً اپنے مذہب میں کیسے شامل کرلے گا ؟کیا یہ سوال اے ٹی ایس سے نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ جبراً تبدیلی مذہب کے معاملے میں کتنے ہندوؤں کو اب تک حراست میں لیا گیا؟جب کہ آئے دن کئی مسلم لڑکیوں کو ہندو لڑکے اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر مذہب کی تبدیلی کرواہے رہے ہیں اے ٹی ایس نے پھر ایسے کتنے معاملات پر قانونی شکنجہ کسا ہے؟دیکھنا یہ ہے اب معاملہ اعلی سطحی عدالتوں میں کیا گل کھلاتا ہے۔
تیسرا نکتہ ہماچل پردیش کے شملہ کی سنجولی مسجد کا ہے معاملہ دو فریقین کے آپس کا تھا جو مسجد تک جا پہنچا جیسے اوپر بیان کیا گیا کہ ریاستوں میں فسطائی طاقتیں کچھ نہ کچھ بہانے سے مسلمانوں کو سازش کی نوک پر رکھنا چاہتی ہے یہاں بھی ویسا ہی ہوا اور کیوں نہ گودی میڈیا دن رات اس کو نہیں دکھائے گا کیونکہ یہاں بھاجپا سرکار جو نہیں ہے شملہ کی منڈیوں میں اس وقت سیب کا سیزن چل رہا ہے یہ آپسی لڑائی ایک منصوبہ بندسازش کے تحت مسجد تک پہنچ گئی اورمسجد کی تعمیر کو غیر قانونی بتایا گیا اکثریتی طبقہ کی عوام سڑک پر نکل کر احتجاج منظم کیا جو مسجد کے بالکل سو میٹر دوری پر تھے پولیس نے بریگیڈ لگاکر ہجوم کو روکا اس سازش کو تشدد میں بدلنے کچھ ذیادہ وقت بھی نہیں لگ سکتا تھا اگر چہ کہ مسلمان اپنی قربانی نہ دیتاایسے حالات میں بھی وہاں کا مسلمان ہی قربانی دینے تیار ہوا اور خود آگے بڑھ کر یہ پیش کش پیش کی جو بھی غیر مجازی حصہ مسجد کی تعمیر میں شامل ہے ہم خود اس کو مسمار کردیں گے ایک وقفے میں مسلمانوں نے ایک بڑی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیالیکن جو قربانی پیش کی کیا کبھی ایسی ہی قربانی دینے کے لیئے سامنے والا فرقہ بھی آمادہ ہوگا؟
یہ ملک اس وقت بڑے ہی نازک دور سے گذر رہا ہے اور یہ نازک دور صرف اس ملک کے مسلمانوں کے لیئے ہے وقف بل کی مخالفت میں ہم نے ملی حمیت کا ثبوت تو دے دیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کی سازشیں کہاں تک ہے مسلمان تو وقت پڑنے پر اس ملک کے لیئے جانوں کے ڈھیر بھی لگائے ہیں اور آئندہ بھی لگاسکتا ہےلیکن ایسے نازک حالات میں ہمیں بہت حساس رہنا ہے سازشوں کو سمجھ کر انتہائی چالاکی اور عقل مندی سے دفاع کرنا ہے چونکہ ہر معاملہ گردش کرتے ہوئے مسلمانوں کے ہی ارد گرد رک جاتا ہے اپوزیشن بھی نشیب و فراز کی طرح ہمارے حق میں ہے کیجریوال کو بھی ضمانت مل چکی ہے لیکن عمر خالد شرجیل امام خالد سیفی مفتی سلمان ازہری سنجیو بھٹ کو ضمانت نہیں ملے گی بلکہ اس کے عوض ہمارے لیئے تو قید خانے کھولے جارہے ہیں اب تو اس ملک کی جمہوریت اس کھلے اور کھوکھلے راستے پر آچکی ہے کہ ملک کے وزیراعظم اور چیف جسٹس آف انڈیا اب نجی ملاقاتیں بھی کرنے لگے ہیں جن کے درمیان کیا کچھ باتیں نہیں ہوئی ہوگی گویا کہ یہ سب چیزیں ہم سب کو سمجھنا ہے کاش انہیں اس بات کا علم ہوتا کہ جب زمین والے اپنی چال چلتے ہیں تو آسمان والا بھی اپنی چال چلتا ہے اور وہی سب سے بہترین چال چلنے والا ہے تب ہی تو امیر مینائی نے کہاہوگا۔
آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا