بھوک کا خطرناک جنگی حربہ جس نے فلسطینیوں کی نسل تباہ کردی

نئی دہلی: غزہ کی پٹی اس وقت انسانی تاریخ کے ایک ہولناک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں ایک طرف قابض اسرائیل کی مسلط کردہ مسلسل ناکہ بندی ہے تو دوسری طرف صحت کا نظام لمحہ بہ لمحہ زمیں بوس ہوتا جا رہا ہے۔ انہی حالات
میں ہزاروں فلسطینی خاندانوں کو ایک اور جان لیوا خطرہ درپیش ہے — "شدید غذائی قلت” جو کہ بچوں کی زندگی اور ان کے مستقبل کو نگلنے کے درپے ہے۔ یہ ایک خاموش مگر نہایت خطرناک طبی بحران ہے جس نے پورے غزہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
عالمی خاموشی اور انسانی لاچارگی کا منظرنامہ
خوراک اور ادویات کی ترسیل ختم ہوتی جا رہی ہے، ہسپتالوں میں سہولیات ناپید ہیں اور عالمی برادری کی خاموشی دل چیر دینے والی ہے۔ غزہ میں روز بروز بگڑتی صورتحال ایک ناقابل برداشت انسانی المیہ بن چکی ہے، جسے نظرانداز کرنا انسانیت کی تذلیل کے مترادف ہے۔
اعداد و شمار چیخ چیخ کر خبردار کر رہے ہیں
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں پانچ سال سے کم عمر کے دو لاکھ نوے ہزار سے زائد بچےفوری غذائی مداخلت کے محتاج ہیں۔ اسی طرح ایک لاکھ پچاس ہزار حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو خصوصی نگہداشت اور غذائی معاونت کی اشد ضرورت ہے۔
فیلڈ رپورٹس کے مطابق ہر ماہ 180 سے 240 تک شدید غذائی قلت کے کیسز علاج کے مراکز تک پہنچتے ہیں، جن میں سے 60 فیصد کو پیچیدگیوں کے باعث ہسپتالوں میں داخل کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین صحت ان اعداد کو””صحت کی ایک ٹائم بم”
قرار دے رہے ہیں، کیونکہ ہسپتالوں میں منتقل کیے جانے والے کیسز کی شرح 16 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد تک جا پہنچی ہے، جو صورتحال کی سنگینی کی واضح دلیل ہے۔
محرومی کی صورت گری: مظاہر اور نتائج
غذائی قلت صرف ایک جسمانی کمزوری نہیں بلکہ یہ بچوں کی پوری شخصیت کو جکڑ لیتی ہے۔ پٹھوں کا سکڑ جانا، جسمانی و ذہنی نشوونما میں رکاوٹ، قوت مدافعت کی شدید کمی اور پست قد ، یہ سب وہ نشانیاں ہیں جو آج غزہ کے ہر گلی کوچے میں دکھائی دیتی ہیں۔
ڈاکٹر رنا زعیتری، جو ہسپتالِ عودہ میں شعبہ علاجی غذائیت کی سربراہ ہیں، کہتی ہیں:“ہمیں ایسے بچے ملتے ہیں جو چل سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں، حالانکہ ان کی عمر ایسی ہونی چاہیے کہ وہ پوری توانائی سے کھیل کود رہے ہوں۔ یہ ایک "طبی اور معاشرتی المیہ” ہے جس کے اثرات زندگی بھر ساتھ رہیں گے”
ویکسین اور خوراک کا قحط: خطرے کی تلوار
وزارت صحت کے مطابق غزہ کے چھ لاکھ سے زائد بچے ایسے امراض کے خطرے میں ہیں جن سے بچاؤ ممکن ہے جیسے کہ پولیو کیونکہ بنیادی ویکسین کی آمد مکمل طور پر بند ہو چکی ہے۔
فلسطینی ہلال احمر کی رپورٹ کے مطابق دودھ (F-75 اور F-100) سمیت اہم غذائی سپلیمنٹس کی شدید کمی کے باعث بچوں کی حالت مزید بگڑ رہی ہے۔ ایک مہاجر ماں، جن کا نام خفیہ رکھا گیا، چیخ چیخ کر کہتی ہیں “میرے بچے کے لیے نہ دودھ ہے، نہ دوا، نہ غذا۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے دن بدن مرجھا رہا ہے”۔
ذہنی و تعلیمی تباہی: ایک اور محاذ
غذائی قلت کے اثرات صرف جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی اور تعلیمی پہلوؤں پر بھی شدید مرتب ہو رہے ہیں۔ بچے توجہ مرکوز کرنے میں ناکامی، سیکھنے میں کمی اور سماجی تعلقات میں رکاوٹ جیسے مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔
ریلیف ٹیموں کے مطابق ان اثرات کا دائرہ وقت کے ساتھ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور بچوں کی تعلیمی کارکردگی اور مستقبل کے امکانات شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ غذائی قلت اب ایک رکاوٹ بن چکی ہے بچوں کے سیکھنے، بڑھنے اور جینے کے حق میں۔
ماں کے پیٹ میں بچوں کا قتل، قبل از پیدائش زخم
ڈاکٹر محمد ابو عفش شمالی غزہ میں میڈیکل ریلیف کے سربراہ، خبردار کرتے ہیں کہ "25 فیصد سے زائد نومولود مختلف پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔
ان کے مطابق قابض اسرائیل کے ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال اور طبی نگرانی کے آلات کی عدم دستیابی اس خوفناک رجحان کو ہوا دے رہے ہیں۔
بین الاقوامی برادری کو پکار
غزہ کے ہر کونے سے پکار بلند ہو رہی ہے کہ فوری طور پر تمام گزرگاہیں کھولی جائیں، طبی اور غذائی امداد فراہم کی جائے، ویکسینز مہیا کی جائیں اور بین الاقوامی طبی ٹیمیں بھیج کر اس انسانی المیے کی تحقیقات کرائی جائیں۔
ایک نسل خطرے میں
غزہ میں غذائی قلت اب عارضی بحران نہیں رہا۔ یہ ایک "دائمی آفت” بن چکا ہے جو ایک پوری نسل کو جسمانی، ذہنی اور تعلیمی تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔
جبکہ بنجمن نیتن یاھو کی قیادت میں قابض اسرائیل اپنے ظلم کی شدت میں کمی نہیں لا رہا،۔ غزہ کے ڈاکٹر اور مائیں امید کی آخری سانس تک لڑ رہے ہیں۔ اب عالمی برادری کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے کہ وہ خاموش تماشائی نہ
بنے، کیونکہ بچے بھوک اور محاصرے کے شکار نہیں، بلکہ انسانیت کے اصل وارث ہوتے ہیں۔