جنرل نیوز

سانس تو آنی جانی ہے دنیا ساری فانی ہے آہ۔۔۔۔۔صدیق من حافظ محمد امتیاز نہ رہے

رشحات قلم 

 عبدالقیوم شاکر القاسمی

جنرل سکریٹری جمعیت علماء

ضلع نظام آباد. تلنگانہ

9505057866

زندگی پانی کا اک بلبلہ ہے جو کب کہاں کیسے ختم ہوجاے کوی بھی انسان اس سے واقف نہیں ہے اورنہ ہی ہوسکتا ہے بلکہ سچ کہا کہنے والوں نے کہ

آگاہ اپنی موت سے کوی بشر نہیں۔

سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں ۔

اس حقیقت واقعہ کو ہر فردبشر روزآنہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ضرورہے دل وجان سے اس امر واقعی کو مانتا ضرور ہے مگر بس احساس نہیں ہوپاتا۔کچھ یوں ہی صدیق من حافظ محمد امتیاز مرحوم کے ساتھ ہواجس کو سب نے دیکھا اوردیکھتے ہی رہ گےء جس کی داستان مختصرایوں کہوں کہ

راقم الحروف گذشتہ منگل28/فبروری کومعمول کے مطابق نماز عصر کے لے مسجد کی جانب رواں تھا کہ درمیان راہ حافظ محمد امجد صاحب سے ملاقات ہوگیء راہ چلتے چلتے حافظ صاحب نے ذکر کیا کہ امتیازکی طبعیت کچھ زیادہ ہی ناساز ہے شہر کے پرائیوٹ ہاسپٹل میں ڈاکٹر نے معذرت کرلی لہذاگورنمنٹ ہاسپٹل لے جایا جارہا ہے میں چونکہ بالکل خالی الذہن تھا اوردل ودماغ میں یہ بات تھی کہ شاید کچھ بخار وغیرہ ہوگا چونکہ موصوف مرحوم اتوار کے روز صبح ہی اپنی ہوٹل پر براجمان تھے میں اورمفتی مبین قاسمی نے ملاقات بھی کی اورچاے نوشی بھی کافی دیر تک باتیں ہنسی مزاح بھی ہوا ایک اورساتھی مولاناعمر پاشاہ بھی موجودتھے میں نے سوچا کہ چلو نماز کے بعد ہاسپٹل جاکر ہی ملاقات وعیادت کرلی جاے گی پھر ہم دونوں کے راستے الگ ہوے میں نے فوری ایک دوست حافظ فیاض کو فون پر اطلاع دی کہ ماجرا یوں ہے انہوں نے بھی ازراہ مزاح کہا کہ دولقمے کھاناکھاکر ہاسپٹل پہونچ جاوں گا میں بس اتنا کہ کر رابطہ منقطع کردیا کہ میں نماز کے لےء جارہا ہوں طبعیت سے متعلق نماز کے بعد اطلاع دینا حافظ صاحب نے اثبات میں جواب دیا اوربس ۔۔۔۔۔

میں وقت مقررہ پر نماز سے فراغت کے بعد جوں ہی فون دیکھا تو کئی ایک کالس آچکے تھے میں نے فوری فیاض سے رابطہ کیا تو کہا کہ امتیاز کا انتقال ہوگیا ہے ہم لوگ گورنمنٹ ہاسپٹل میں ہیں

مجھ پر ایک سکتہ سا طاری ہوگیا اورپیروں تلے زمین کھسکنے لگی کہ یہ ابھی کہ ابھی کیا تھا اورکیا ہوگیا زبان سے فورا کلمات استرجاع کہتے ہوے ہاسپٹل گیا جہاں بذریعہ ایمبولینس مرحوم کو گھر لے جایا جارہا تھا میں نے بھی اسی ایمبولینس میں بیٹھ جانا مناسب سمجھا اوراگلی سیٹ پر بیٹھ گیا پیچھے جو مڑکردیکھا تو مرحوم کی نعش تھی جو بظاہر دیکھنے میں زندہ مگر بے جان تھی وہی مسکراتا چہرہ وہی چوڑی پیشانی اوربالوں اورکپڑوں کا انوکھا انداز

اللہ تعالی غریق رحمت فرماے جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرماے ہم سب کو موت سے پہلے مابعد الموت کے لےء اعمال صالحہ ذخیرہ کرنے کی توفیق نصیب فرماے ۔۔۔۔آمین ۔۔۔

یوں تو بہت ساری یادیں مرحوم سے وابستہ ہیں جن کواب رہ رہ کر بس یادہی کیا جاسکتا ہے شاید میری ہی عمر رہی ہو1982 کی پیدائش اورزندگی کے چالیس سال گذارکر اب 2023میں اس دارفانی سے دار باقی کی جانب کوچ کررہے ہیں مجھے یادہیکہ ہم لوگ بچپن میں ایک دوسرے سے کافی مانوس تھے آپسی ملنساری بھی بے مثال تھی بے تکلفی ایسی کہ جب بھی ملاقات ہوتی تو وہی بچپن والی زبان استعمال کرتے سال 1997میں مرحوم نے تکمیل حفظ کیا بڑی جانفشانیوں اورمحنتوں سے قرآن مجید یادکیاکرتے تھے یادکرنے سے زیادہ موصوف کے لےء یادرکھنا ذرا مشکل ضرور تھامگرہمت کبھی نہیں ہاری اورتکمیل قرآن کرکے ہی حافظ قرآن کا اعزاز حاصل کیا تعلیمی دور کے بعد کچھ تجارت کی سوجھی تو اس لائن کو اختیارکیا مگر پھر سال 1999اورسال 2000میں شہع کے مرکزی ادارہ مدرسہ مظہرالعلوم جو تقریباشہر کے تمام ہی علماء وحفاظ کا مادرعلمی ہے اسی مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے شاید تین چار سال تک یہ سلسلہ جاری رہا بعد ازاں مرحوم نے باہرملک سعودی عرب جانے کا عزم کیا اور2002میں مملکت عربی ریاض کا قصد کیا 8/ آٹھ سال زندگی کے اسی دیارمیں گذارکر ترقیاں حاصل کیں اور سامان زندگی مہیاکرتے کراتے رہے بالاخر سال 2009 میں نکاح کیا اوراچھی زندگی گذارکر سال 2010میں اپنے ملک اپنے شہر اپنے لوگ اوراپنی ہی سرزمین نظام آباد واپس تشریف لے آے چونکہ دنیاوی اعتبارذہین وفطین تو موصوف تھے ہی جس کی وجہ سے مختلف قسم کی تجارت میں کامیابیاں حاصل کرتے رہے

مگر کیا پتہ کہ وہ اتنی جلدی اپنے چاہنے والوں اپنے ایل وعیال اوروالدین کو داغ مفارقت دے چلیں گے

بہر حال نیرنگی تقدیر تو دیکھیں کہ اب دولڑکے دولڑکیاں اوربیوی کوبظاہر بے سہاراکرکے رخصت ہوچلے بس اللہ ہی بہترین کارساز وکفیل ہے وہ سب کو دیتا ہے دیتارہے گا سانس تو سب آنی جانی ہے دنیاساری فانی ہے کوی یہاں رہنے نہیں آیا آج یہ تو کل اور کی باری ہے

موت تو برحق ہے نہ چاہتے ہوے بھی ہر کس وناکس کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا مرضی مولی کے آگے کسی کابس نہ چلا ہے نہ چلے گا

اذکروامحاسن موتاکم کے تحت بس اتنا کہوں کہ موصوف انتہای خلیق تھے ملنساری اورتعلقات کی استواری یقیناامتیاز کاامتیاز ہی تھا اپنے دوستوں سے ملتے رہنا اورباہم ہنسی اورمزاح کرتے رہنا موصوف کی اک خاص عادت تھی زمانہ طالب علمی سے ہی اس عادت نے سب کو ان کا اسیر بنادیاتھا یہی وجہ ہیکہ طالب علمی کے محدود زمانہ کے بعد بھی وہ سب کی آنکھوں کے تارے بنے ہوے تھے افرادخاندان میں بھی موصوف اک ذمہ دار اورمقبول فرد کی حیثیت رکھتے تھے تاہم عمر کی پختگی کے اس آغازی مرحلہ میں کسی کا اپنوں کو چھوڑ کر چلاجانا باعث رنج والم تو ہوتا ہی ہے چونکہ زندگی کا یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں انسان کی طاقت خوبصورتی صحت اورجذبات اپنے نقطہ عروج پر ہوتی ہے جینے کی امنگ بیوی بچوں کی خواہشات اولاد کی تعلیم وتربیت ان کی سماجی ومعاشرتی دیکھ بھال کی فکر صحیح طور پر اسی مرحلہ زیست میں بیدار ہوتی ہے کچھ کرنے کاجذبہ دروں انتھک جدوجہد کا حوصلہ مسلسل محنت اورکام کرنے کی استعداداورمقصدزندگی کو پالینے کاجنون انسان پر سوار ہوتاہے جو لازما حیات دنیاوی کے حسین لمحات بن سکتے ہیں

مگر افسوس کہ

اب یہ سب باتیں ایک خواب ہی بن کر رہ گئیں

اسی لےء انسان کو چاہیے کہ رب تعالی کی عطاءکردہ لمحات کو ایام فرصت واوقات جوانی کو اپنے لےء ایک عظیم نعمت تصورکرتے ہوے قدردان بن جاے تو وہ کامیاب انسان کہلاتا ہے نیز فکر آخرت اورنجات اخروی ہی ہر مسلمان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے اگر یہ پیدانہ ہوسکی تو پھر سب کچھ بیکار واکارت جاے گا

پاک پروردگار ہم سب کو زندگیوں امین1برکت نصیب فرماے

امین

متعلقہ خبریں

Back to top button