70 فیصد مسلم خواتین میں وٹامن ڈی کی کمی – اترپردیش کے ایک میڈیکل کالج کی عجیب منطق

اترپردیش کے جُونپور میں اُماناتھ سنگھ اٹانامس میڈیکل کالج کے آرتھوپیڈکس ڈیپارٹمنٹ کی تحقیق کے مطابق 70 فیصد مسلمان خواتین وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 30 فیصد ہندو خواتین کمر درد اور مختلف ہڈیوں کے مسائل میں مبتلا ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہڈیوں کی کثافت کم ہونے سے ہڈیاں ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ خواتین کو اس مسئلے کا ادراک نہیں ہوتا اور بعض اوقات ہڈیاں خود بخود بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔ یہ تحقیق سینئر سرجن پروفیسر ڈاکٹر اُمیش کمار سروج کی نگرانی میں کی گئی،
جس میں 100 ہندو اور 100 مسلمان خواتین شامل تھیں۔ تحقیق کے ڈیٹا کے مطابق 10 سے 20 سال کی عمر کی 60 سے زائد مسلمان لڑکیاں فریکچر کی مشکلات میں مبتلا ہیں جبکہ 21 سے 50 سال کی عمر کی تقریباً 35 خواتین کو ہڈیوں سے متعلق مسائل ہیں۔
کئی خواتین اچانک ہڈیوں کے فریکچر کی بیماری میں مبتلا ہیں جسے طبی اصطلاح میں آسٹیومالیشیا کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری تب ہوتی ہے جب جسم میں وٹامن ڈی کی سطح بہت کم ہو جائے۔ ہندو خواتین میں یہ مسئلہ 70 فیصد کم پایا گیا، جس کی وجہ زیادہ تر گاؤں میں رہنے والی ہندو خواتین کا کھیتوں میں کام کرنا اور دھوپ میں زیادہ وقت گزارنا ہے۔
اس کے برعکس مسلمان خواتین دھوپ میں کم وقت گزارتی ہیں، تحقیق کرنے والی ٹیم نے ایک عجیب منطق پیش کرتے ہوئے اس کی ایک اور وجہ برقعہ پہننا بھی بتایا گیا ہے جس سے ان کے جسم میں وٹامن ڈی کی سطح کم ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر سروج کی ٹیم کے مطابق آسٹیومالیشیا کے مریضوں کو عام طور پر کمر درد، پٹھوں میں تناؤ، چکر آنا اور تکلیف جیسے مسائل ہوتے ہیں۔ ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں لیکن بہت سے لوگ اسے عام صحت کا مسئلہ سمجھ کر صرف درد کم کرنے والی دوائیں یا ملٹی وٹامن ہی لیتے ہیں۔ ایکسرے اور وٹامن ڈی کی خاص ٹیسٹ کرنے پر بھی اصل بیماری کا پتہ نہیں چلتا۔
ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ صبح اور شام ہلکی دھوپ میں ورزش کی جائے، سبز پتوں والی سبزیاں، پھل اور دودھ استعمال کریں، اور ٹھنڈے مشروبات کم پئیں۔ جسم میں وٹامن ڈی کی سطح 30 سے 100 نینوگرام فی ملی لیٹر ہونی چاہیے لیکن جُونپور کی بہت سی خواتین میں یہ سطح 20 سے بھی کم پائی گئی۔
یہ ایک بہت سنگین مسئلہ ہے اور تحقیق کے مطابق مسلمان خواتین اس بیماری سے زیادہ متاثر ہیں۔ 70 فیصد سے زائد مسلمان خواتین آسٹیومالیشیا کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اُمیش کمار سروج نے بتایا کہ ہندو خواتین میں یہ مسئلہ کم ہے اور مسلمان خواتین اس بیماری کی زد میں زیادہ ہیں۔