روز عید حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تسلیم ورضا کی لازوال مثال پیش کی مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

روز عید حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تسلیم ورضا کی لازوال مثال پیش کی مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 6جون (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج وہ ابنے خطاب کرتےہوئے بتلایا کہ میں عید الاضحٰی کے اس پر مسرت موقع پر عالم اسلام کے مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ پوری ملت اسلامیہ کی عبادات اور قربانیاں اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آج کے اس مقدس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں تسلیم ورضا کا اظہار کرتے ہوئے قربانی کی لازوال مثال پیش کی تھی۔ یہ عمل اللہ تعالٰی کو اتنا پسند آیا کہ اسے قیامت تک کے لیے اُمتِ محمدﷺ کے لئے بطورعبادت لازم قرار دے دیا۔ یاد رکھیں! قربانی ایک رسم نہیں بلکہ ایک عالمگیر جذبہ ہے ۔قربانی صرف جانور کے ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اعلی مقاصد کے حصول کے لئے اپنی متاع حیات کو اللہ کے راستہ میں قربان کرنا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس میں ایثار اور قربانی کا جذبہ موجود نہ ہو۔ میں اس پر مسرت موقع پر پوری دنیا کے تمام مسلمانوں کو دل کی گہرائیوں سے پر خلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ عزو جل سے دعا گو ہوں کہ وہ ، اپنے ملک ہندوستان پر اپنی رحمتیں نازل کرے اور ہم سب کے اعمال صالحہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین انھوں نے مزید بتلایا کہ صحیح اور معتبر روایات میں منقول ہے کہ عیدکے دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو یہ دعا دیتے تھے کہ”تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنْکُمْ”یعنی اللہ تمہارے اور ہمارے( نیک اعمال) قبول فرمائے ۔البتہ اگر "تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنْکُمْ”کے بجائے ’’ عید مبارک‘‘ کہا جائے ، یا اس کے علاوہ مبارک بادی کے لیعرف وعادت کے مطابق کوئی اور جملہ جس میں مبارک بادی اور اظہار محبت والفت کا مفہوم ہواسے اس موقع پر ایک دوسرے سے کہا جائے تو یہ بھی درست ہے ۔علامہ طحطاوی ؒ اور علامہ شامیؒ فرماتے ہیں کہ شام اور مصر کے علاقوں میں ’’ عید مبارک ‘‘ کہنے کا رواج ہے ، یہ بھی مشروعیت و استحباب میں ” تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنْکُمْ” کے حکم میں ہے ؛اس ليے كه عید کی مبارک باد دینا عید کے دن کے بابرکت ہونے کی دعا دینا ہے،تو جس طرح اعمال صالحہ کی قبولیت کی دعا دینا جائز اور مستحب ہے، اسی طرح جس دن اعمال قبول ہوں اس دن کی آمد پر بھی برکت کی دعا دینا جائز اور مستحب ہے، لہذا عید کے موقع پر (خواہ عید الفطر ہو یا عید الاضحی )ایک دوسرے کو عید مبارک ،عید الفطر مبارک اور عید الاضحی مبارک کہنا یا لکھنا جائز، بلکہ مستحب ہے، لیکن اس کو لازم سمجھنا اور اس پر اصرار کرنا، اور نہ کرنے والوں پر نکیر کرنا شرعًا درست نہیں ہے۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے قربانی کی فضیلت پرروشنی ڈالتے ہوئے بتلایا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عنہما فرماتے ہیں : حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عید الاضحیٰ(یعنی ذُوْالْحِجَّۃُ الْحَرام کی10 تاریخ) کو فرمایا : مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ فِی ہٰذَا الْیَوْمِ اَفْضَلُ مِنْ دَمٍ یُہْرَاقُ یعنی آج کےدن آدمی کا کوئی عمل خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ فضیلت والا نہیں ہے۔ایک حدیث پاک میں ہے : یومُ النحر (یعنی عید الاضحٰی کی 10 تاریخ) میں اللہ پاک کے ہاں آدمی کا سب سے پسندیدہ عمل خون بہانا (یعنی قربانی کرنا) ہے ، بے شک قربانی کا جانور روزِ قیامت اپنے سینگوں ، اپنےبالوں اور اپنے کُھروں کے ساتھ آئے گا ، بے شک قربانی کا خون زمین پر بعد میں گرتا ہے ، رب کے ہاں قبول پہلے ہو جاتا ہے ، پس خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔قربانی کی جگہ صِرْف گوشت صدقہ کرنا کافی نہیں
علماء اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ قربانی میں مقصُود خُون بہانا ہے ، قربانی کا وقت کے متعلق شرعی رہنمائی کرتے ہوئے بتلایا کہ بقرعید کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ تک کی شام (آفتاب غروب ہونے سے پہلے) تک قربانی کا وقت ہے، ان دنوں میں جب چاہے قربانی کرسکتا ہے، لیکن پہلا دن افضل ہے، پھر گیارہویں تاریخ، پھر بارہویں تاریخ۔
شہر میں نمازِ عید سے پہلے قربانی کرنا دُرست نہیں، اگر کسی نے عید سے پہلے جانور ذبح کرلیا تو یہ گوشت کا جانور ہوا، قربانی نہیں ہوگی۔ البتہ دیہات میں جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی، عید کے دن صبحِ صادق طلوع ہوجانے کے بعد قربانی کرنا دُرست ہے۔ اگر شہری آدمی خود تو شہر میں موجود ہے، مگر قربانی کا جانور دیہات میں بھیج دے اور وہاں صبحِ صادق کے بعد قربانی ہوجائے تو دُرست ہے۔ ان تین دنوں کے دوران رات کے وقت قربانی کرنے سے احتیاط برتیں بھی اگر ان تین دنوں کے اندر کوئی مسافر اپنے وطن پہنچ گیا یا اس نے کہیں اِقامت کی نیت کرلی اور وہ صاحبِ نصاب ہے تو اس کے ذمہ قربانی واجب ہوگی۔ مرد کے ذمہ بیوی کی جانب سے قربانی کرنا لازم نہیں، اگر بیوی صاحبِ نصاب ہو تو اس کے لئے الگ قربانی کا انتظام کیا جائے۔
جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہو وہ اپنی واجب قربانی کے علاوہ اپنے مرحوم والدین اور دیگر بزرگوں کی طرف سے بھی قربانی کرے، اس کا بڑا اَجر و ثواب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے بھی ہم پر بڑے احسانات اور حقوق ہیں، اللہ تعالیٰ نے گنجائش دی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کی جائے، مگر اپنی واجب قربانی لازم ہے، اس کو چھوڑنا جائز نہیں۔