کربلا کا واقعہ محض تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ایک عظیم پیغام ہے۔ ،مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا بیان

کربلا کا واقعہ محض تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ایک عظیم پیغام ہے۔
،مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا بیان
حیدرآباد 5جولائی (پریس ریلیز ) تلنگانہ اسٹیٹ کے حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد میں واقع مسجد کے پیش امام وخطیب مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے یوم عاشورہ کے موقع پر اپنا پیغام تحریر کرتےہوئے بتلایا کہ یوم عاشورہ ہمیں قربانی، کا سبق دیتا ہے، یہ یوم عاشورہ ہمیں صبر کا درس دیتا ہے،شجاعت و بہادری کا سبق دیتا ہے،
وفا کا پیغام دیتا ہے۔ باطل قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے، ہمیں حق پر قائم رہنے اور حق کے لیے جان تک قربان کرنے کا پیغام دیتا ہے، یہ حرمت والا محرم الحرام کا مہینہ ہے۔ اللہ ہمارے دلوں کو بدل کر ہمیں محرم الحرام کی حرمت کی حفاظت کرنے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
انھوں نے مزید کہا ہے کہ عاشورہ محرم الحرام کے روزوں کو دینِ اسلام میں خصوصی فضیلت حاصل ہے۔ ان دو دنوں کا روزہ رکھنا نہ صرف عبادت ہے بلکہ یہ ایام ہمیں قربانی، صبر، استقامت اور حق کے ساتھ وابستگی کا عملی پیغام دیتے ہیں انہوں نے کہا کہ کربلا کا واقعہ محض تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ایک عظیم پیغام ہے۔ امام حسین رضہ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے میدان کربلا میں وہ عظیم قربانی دی جو رہتی دنیا تک مظلوموں کے لیے مشعل راہ رہے گی انہوں نے کہا کہ عاشورہ کا پیغام بیداری، اصلاحِ نفس اور حق پر ڈٹ جانے کا عملی نمونہ ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ان دنوں کی روحانیت کو سمجھیں اور اپنی زندگیوں میں صبر، برداشت، رواداری اور حق گوئی کو اپنا شعار بنائیں کئی ایک یادگار تاریخی اہم واقعات اس دن کے صدفِ گرانمایہ میں لاقیمت موتیوں کی طرح محفوظ ہیں۔ یہی وہ مبارک دن ہے جس میں ہم سب کے جدامجد حضرت سید نا آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ،اسی دن وہ جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن حق سبحانہ و تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی
، یہی وہ دن ہے جس میں آسمان و زمین کو خلعت وجود بخشا گیا، اور قلم کی تخلیق ہوئی، یہی وہ تاریخ ساز دن ہے جس دن اللہ سبحانہ نے سفینۂ حضرت نوح علیہ السلام کو کوہ جودی کی آغوش میں بحفاظت تمام پناہ دی ، حضرت سید نا ابراہیم علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی اسی مبارک دن میں ہوئی،آپ علیہ السلام سےنمرودکی عداوت و دشمنی ،حسدوجلن، انتقام کی جوآگ اس کےسینہ میں شعلہ زن تھی اس کو بجھانے کی غرض سے ایسی آگ دہکائی کہ جس سے ایک محدود علاقہ تک ہی نہیں بلکہ میلوں مسافت تک تباہی و بربادی رونما ہوسکتی تھی، لیکن کرشمہ قدرت کہ اللہ سبحانہ نے آپ علیہ السلام کے حق میں آج ہی کے دن اس کو گل و گلزار بنا دیااورآپ علیہ السلام کی حفاظت کا ایسا معجزانہ انتظام فرمایا کہ دشمن انگشت بدنداں رہ گئے ، اسی دن اللہ سبحانہ نے آپ علیہ السلام کو نعمت خلت سے سرفراز فرمایا
۔ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام اورآپ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کواللہ سبحانہ نے فرعون کے مظالم سے آج ہی کے دن نجات عطافرمائی، فرعون اور اس کے لشکر کو حق سبحانہ نے اسی دن دریائے نیل میں غرقاب کر کے قیامت تک آنے والی انسانیت کو ظلم کے انجام بد سے آگہی بخشی، یہی وہ مبارک دن ہے جس میں حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمانوں پراٹھالیا گیا جس سے آپ علیہ السلام کواللہ سبحانہ نے مزیدرفعت و عظمت عطا فرمائی یہی وہ دن ہے جس میں حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمائش و ابتلاء سےنجات عطافرما کر شفاء کلی بخشی گئی۔
حضرت دائود علیہ السلام کی توبہ بھی اللہ سبحانہ نے اسی دن قبول فرمائی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اسی دن حکومت و سلطنت سےنوازاگیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی بھی اسی مبارک دن واپس لوٹائی گئی، آپ علیہ السلام کے فرزند جلیل حضرت یوسف علیہ السلام کو کنعان کے کنویں سے اسی دن زندہ وسلامت نکالا گیا۔ حضرت یونس علیہ السلام بھی مچھلی کے پیٹ سے بحفاظت تمام اسی دن باہر نکالے گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی اسی مبارک دن ہوئی اور اسی مبارک دن آسمانوں کی طرف اٹھا لئے گئے۔ روایات کی رو سے قیامت کا وقوع بھی اسی دن ہوگا۔سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نکاح ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سےاسی دن ہواآج سے چودہ سو سال قبل اسی دن ایک عظیم سانحہ رونما ہوا، کچھ بدبختوں نے نواسۂ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) جگر گوشہ بتول حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا و نور نظر لخت جگر خلیفہ راشد حضرت سید نا علی کرم ا للہ وجہہ ورضی اللہ عنہ (حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ ) کو بڑی بیدردی سے شہید کر دیاگیا
۔ یوم عاشورہ کو عام طور پر اس عظیم واقعہ کی وجہ اہم مانا جاتا ہے، یقینا اس اندوہناک سانحہ نے اس دن کی تاریخ کے کئی ایک زرین واقعات میں ایک اور عظیم واقعہ شہادت کا اضافہ کر دیا ہےجومغموم دلوں اوراشکبارآنکھوں سے سنا اور پڑھا جاسکتا ہے جس کو تاقیام قیامت بھلایا نہیں جاسکتالیکن اس شہادت عظمی کے عظیم سانحہ نےحق وباطل کے درمیان ایک لکیرکھینچ دی ہےاوریہیں سے ان دونوں کی راہیں متعین ہوگئی ہیں،ایک حسینیت اور دوسرے یزیدیت، اسی دن سےحق کےراہی حسینیت کےعلمبرداراورباطل کے پرستار یزیدیت کے طرفدار قرار پاگئے۔ اہل بیت اطہار عالم روحانیت کا خورشید خاور ہیں اِس مبارک خانوادہ کو حضرت سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عظیم نسبی نسبت کےساتھ سببی نسبت(شرف صحابیت) حاصل ہے جن کے احسانات امت مسلمہ ہی پر نہیں بلکہ ساری انسانیت پر ہیں تا قیام قیامت سارے انسان ملکر بھی ان کا بدلہ نہیں چکا سکتے، اہل بیت اطہار کی شہادت نے اس مبارک دن کو تاریخ ساز بنادیا ہے۔ حقیقی معنی میں حسینی کردارسےمحبت رکھنے والوں کےلئے اس میںایک عظیم پیغام ہے جب جب ظلم کی آگ شعلہ بداماں ہو،باطل طاقتیں حق کے خلاف سازشیں رچ رہی ہوں توپھروہ ہاتھ پرہاتھ دھرےبیٹھے نہ رہیں بلکہ حق سبحانہ کی خوشنودی کیلئے سربکف باطل کے خلاف نبردآزما ہوں اور ضرورت داعی ہوتوبلاتردد اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنےسے بھی دریغ نہ کریں ۔
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا (مرزاغالبؔ)
یہی پیغام حسینیت ہے ،یزیدی طاقتیں کسی وقت بھی سرابھارسکتی ہیں ،حسینی کردار ہی ان کو پسپا کرسکتا ہے ،اس لئے اسی (حسینی کردار ) کو نقوش راہ بنانے کی ضرورت ہے۔اہل بیت اطہار کی محبت جز ءایمان ہے، اس لئے مسلمانوں کے قلوب ان کی محبت سے سرشار ہیں ،اس پاکیزہ مبارک ومقدس خاندان سے امت مسلمہ کی نسبت ،تعلق و محبت کوئی وقتی اور جذباتی نہیں ہے ،بلکہ وہ ایمانیات واعتقادات سے جڑی ہوئی ہے ۔