مضامین

ملک کی آزادی اور جمہوریت کی بحالی میں علماء و مدارس کا اہم کردار!

تحریر: جاوید اختر بھارتی

ہندوستان کی تاریخ میں 26 جنوری اور 15 اگست کا دن بہت ہی اہمیت کا حامل ہے یہ دونوں قومی تہوار کا دن ہے یعنی 15 اگست 1947 کو ہندوستان آزاد ہوا اور 26 جنوری 1950 کو ملک کے آئین کا نفاذ ہوا ایک کو ہم جشن آزادی کے نام سے اور دوسرے کو جشن جمہوریہ کے نام مناتے ہیں اور مجاہدین آزادی کے ایثار و قربانی کا تذکرہ بھی کرتے ہیں اور انہیں خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں-

بعض لوگ کہتے ہیں کہ جمہوریت کا کیا مطلب ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے ملک میں تقریر و تحریر کی آزادی ہے، ووٹ دینے، ووٹ مانگنے اور سیاسی پارٹی بنانے کا اختیار ہے ، نگر پنچایت کے سبھاسد سے لے کر اسمبلی و پارلیمنٹ کے ارکان تک اور گرام پنچایت کے پردھان سے لے کر ملک کے وزیراعظم تک عوام کے سامنے جوابدہ ہیں آئین کے دائرے میں رہ کر سب کو اپنی بات کہنے کا حق ہے یہی جمہوریت ہے-

یہ صد فیصد سچائی ہے کہ علماء کرام کی بدولت ہی بھارت انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا ہے اور آج بھی مدارس میں ملک سے وفاداری کی تعلیم دی جاتی ہے امن و سلامتی کا پیغام دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آیا ہے تو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر ملک کی حفاظت کی ہے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا ہے اس لئے نہ تو مسلمانوں پر شک کی گنجائش ہے اور نہ ہی دینی مدارس پر انگلی اٹھانے کی گنجائش ہے ایک بات یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ہر احتجاج و مظاہرے کو طاقت کے استعمال کے ساتھ روکا جانا یہ جمہوریت کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش ہے اس لیے کہ سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے فیصلوں پر احتجاج و خیر مقدم دونوں کا اختیار ملک کے آئین نے دیا ہے اور آئین تب بنا ہے جب سبھی مذاہب کے ماننے والوں نے صف آرا ہوکر انگریز جیسی ظالم و بدبخت قوم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ہندوستان کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا-

 

وقتاً فوقتاً کچھ فرقہ پرست جس طرح بدزبانی کر تے ہیں اور دینی مدارس پر جو بیہودہ الزامات لگا تے ہیں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے انہیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ جہاں اسلام ہوگا وہاں سلامتی ہوگی جہاں ایمان والے ہوں گے وہاں امن و امان ہوگا کیونکہ اسلام کے معنیٰ ہی سلامتی کے ہیں اور سلامتی کی ہی مذہب اسلام تعلیم بھی دیتا ہے ماضی میں جو پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرہ ہورہا تھا اسے قطعی طور پر مذہبی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی اور مذہبی تھا بھی نہیں بلکہ جس طرح ملک آزاد کرانے میں ہر مذاہبِ کے لوگوں نے حصہ لیا تھا اسی طرح آئین و جمہوریت بچانے کے لئے اور جمہوریت کی شان بڑھانے کے لئے ہر مذاہبِ کے لوگ احتجاج و مظاہرے میں حصہ لے رہے تھے اس لئے کہ ہر انصاف پسند و سیکولر ازم میں یقین رکھنے والے کو اس بات کا احساس ہورہا تھا اور احساس ہورہا ہے کہ شہریت تر میمی قانون سے ملک کا زبردست نقصان ہوگا اس سے مذہبی منافرت بڑھے گی اور فرقہ پرست طاقتیں مضبوط ہوں گی،، اور ملک میں فرقہ پرستی نہ رہے اور پوری طرح امن و سکون قائم رہے یہ ملک کے ہر شخص کی ذمہ داری ہے-

 

مسلمانوں کو بھی اپنے آباؤ و اجداد کی تاریخ کو یاد رکھنا ہو گا کیونکہ جو قوم اپنے اسلاف کی تاریخ بھلا دیتی ہے وہ قوم سیاسی طور پر اپنا وجود کھو دیا کرتی ہے کہیں اس کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور وہی حال آج ملک میں مسلمانوں کا ہے اس لیے جمہوریت میں سیاسی پہچان کا ہونا لازمی ہے اور سیاسی پہچان تبھی قائم ہوگی جب ہم اپنے اسلاف کی تاریخ سے روشناس ہوں گے

آج علماء کرام پر مقدمات درج کئے جارہے ہیں جبکہ اس ملک کو آزاد کرانے کیلئے علماء کرام نے سروں پر کفن باندھے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے ہزاروں ہزار کی تعداد میں شہید ہوئے ہیں علامہ فضل حق خیرآبادی جنہوں نے انگریزوں کی حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا جنہیں کالا پانی کی سزا دی گئی فتویٰ واپس لینے کے لئے دباؤ بھی ڈالا گیا لیکن علامہ فضل حق خیرآبادی نے کہا کہ فتویٰ طبیعت کی روشنی میں نہیں دیا جاتا ہے کہ جب چاہے بدل دیا جائے بلکہ فتویٰ شریعت کی روشنی میں دیا جاتا ہے اس لیے بدلا نہیں جاسکتا اور ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس مذہب میں وطن عزیز سے محبت اور حفاظت کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اس پر عمل کرنا نصف ایمان تک قرار دیا گیا ہے تو ہم اپنی آخری سانس بھی اپنے ملک ہندوستان کے لئے قربان کردیں گے، اپنے خون کا آخری قطرہ تک ملک کے لئے بہا دیں گے لیکن فتویٰ نہیں بدلیں گے مولانا ابوالکلام آزاد کی بیوی بیمار تھی اور مولانا آزاد جیل کے اندر تھے انگریز نے پیغام بھیجا کہ اگر مولانا آزاد تحریر دیں اپنے آپ کو تحریک آزادی سے الگ کر نے کی تو ہم انکی بیوی کی بیماری کے مدنظر انہیں رہا کر دینگے جب یہ پیغام جواہر لال نہرو نے ان تک پہنچایا تو مولانا آزاد نے کہا کہ ایک طرف میری بیوی بیمار ہے اور دوسری طرف میری ماں کو انگریزوں نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے ایسے میں مجھے اپنی بیوی کی فکر نہیں ہے بلکہ اپنی ماں کی فکر ہے میں اپنی ماں کو انگریزوں کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لئے اپنی بیوی کی بیماری کو نظر انداز کرسکتا ہوں لیکن ماں کو سسکتا ہوا اور زنجیروں میں کراہتا ہوا نہیں دیکھ سکتا مجھے اپنی بیوی کی بیماری منظور ہے، بیوی کی اٹھتی ہوئی ارتھی منظور ہے، بیوی کا جاتا ہوا جنازہ منظور ہے مگر مجھے ایسی رہائی منظور نہیں ہے-

 

ریشمی رومال کی تحریک علماء کرام نے چلائی، انقلاب زندہ باد کا نعرہ علماء کرام نے لگایا ، گاندھی جی کو مہاتما کا خطاب علماء کرام نے دیا، تقسیم ہند کی مخالفت علماء کرام نے کیا، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر انگریزوں کے خلاف خطاب علماء کرام نے کیا، ملک کی آزادی کے بعد جب دستور ہند مرتب ہوا تو سب سے پہلے خیرمقدم علماء کرام نے کیا، قدم قدم پر ملک سے حب الوطنی کا ثبوت علماء کرام نے دیا اور ہزاروں علماء نے ملک کو آزاد کرانے کے لئے اپنی جانیں قربان کیں ان کا تعلق اسی مدارس سے تھا جن مدارس پر آج کچھ فرقہ پرست ذہنیت کے لوگ گھناؤنے الزامات لگارہے ہیں اگر اپنی آنکھوں سے نفرت اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو ہندوستان کے مدارس ملک کی آزادی کی لڑائی اور جمہوریت کے فروغ کا ایک حصہ نظر آئیں گے لیکن یہاں تو ہندو مسلم اتحاد کو توڑ کر اور دونوں کے جذبات کو ابھار کر سیاست کی روٹی سینکنے کا کچھ لوگوں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے جنہیں نہ تو ملک کی پرواہ ہے اور نہ ملک کی عوام کی پرواہ ہے نہ ائین کی پرواہ ہے نہ عہدے کے وقار کی پرواہ ہے بس سروں پر غرور سوار ہے زبان درازی، بدکلامی، بدزبانی، گالی اور دھمکی و اشتعال انگیز بیانات و تقریریں کرنا ان کا مشغلہ بن گیا ہے اور آج ہماری صفوں میں بھی ایسے ایسے تنگ نظر پیدا ہو گئے ہیں کہ ملک کی آزادی سے متعلق بھی مضامین لکھتے ہیں تو مکتب فکر کی بنیاد پر لکھتے ہیں، ان کے مضامین سے اختلافات، تعصبات، بغض حسد نفرت کی بو آتی ہے اور اس کے باوجود بھی صحافی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ان کی سوچ کا دائرہ بہت چھوٹا ہے میرے نزدیک بلا تفریق مذہب و ملت وہ سب قابل احترام ہیں جنہوں نے ملک کو آزاد کرانے میں جان و مال کی قربانی دی ہے-

[email protected]

+++++++++++++++++++++++++

جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

 

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button