مضامین

شرعی زندگی حصہ سوم 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

شاہ انظار کریم فریدی چک بہاؤ الدین ضلع سمستی پور کے رہنے والے ہیں، مشغلہ ایمس دہلی میں لیب ٹیکنیشین کا ہے ،ا سلامی تحریکات سے متاثر ہیں، اپنی زندگی میں اسلام کو پورے طور پر برتتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس دائرہ میں لا کر اپنے اور دوسروں کے لیے اخروی سرخروئی کا ذریعہ بننا چاہتے ہیں، اپنی رہائش کے قریب زید پور ایکسٹنشن حصہ ۲، بدر پور نئی دہلی میں دینی مکتب چلا تے ہیں اور ڈیوٹی کے بعد جو وقت بچتا ہے اس کو دینی تعلیم کی ترویج واشاعت میں صرف کرتے ہیں، ظاہری وضع قطع بھی درست ہے، چہرے پر داڑھی اس طرح دراز اور گھنی ہے کہ بادی النظر میں کسی شیخ وقت کا گمان ہوتا ہے ۔

شرعی زندگی حصہ سوم حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق ہے، شروع کے دو حصہ میں کیا ہے اس کا علم مجھے نہیں ، کتاب کے صفحات دو سو بہتر ہیں اور قیمت ایک سو پچاس روپے ہے جو آج کل اردو کتابوں پر درج قیمت کے اعتبار سے کم ہے ، آج کل فی صفحہ ایک روپیہ قیمت رکھنے کا مزاج بن گیا ہے ، یوں بھی اردو کتابوں کے قاری کی تعداد بھی کم ہے اور ان کی قوت خرید اس سے بھی کم تر، شاہ انظار کریم فریدی نے قیمت اس لیے کم رکھی ہے تاکہ وہ زیادہ لوگوں تک پہونچ سکے اور اس کا فائدہ عام وتام ہو ، اس کتاب کی ترتیب میں مولانا انظر خان قاسمی نے ان کی معاونت کی ہے اور ان کا نام بھی سر ورق پر درج ہے۔

پیش لفظ میں مصنف نے اپنی علمی صلاحیت اور اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ نہ میری علمی صلاحیت کاکوئی معیار ہے اور نہ ہی میری کوشش اس انداز کی ہے ، جس سے مجھے یقین ہو کہ اس کتاب یعنی شرعی زندگی حصہ سوم سے قوم کو کچھ فائدہ حاصل ہوگا، مصنف کاکہ جہالت کی تاریکی میں ایک شمع جلا کر اپنی حصہ داری ادا کرنا چاہتے ہیں اور جہالت نیز عقائد باطلہ ، رسوم وشرک وبدعات کی مخالفت کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں، لکھتے ہیں:

’’میں بھی اللہ کے دین کو غالب کرنے کی کوشش میں قریہ قریہ ، شہر شہر اس کتاب کی روشنی کو پھیلا نا چاہتا ہوں، جس سے قوم کے بچے اور بڑوں کے ایمان کی حفاظت ہو سکے اور لوگوں کو ارتداد سے بچانا آسان ہو جائے۔‘‘

کتاب کا آغاز اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت سے کیا گیا ہے ، پھر اسلام، ایمان ، کفر، شرک وبدعات اللہ کے نظام میں فرشتوں کا کردار ، قرب قیامت کی علامتیں، جنت ودوزخ ، طہارت ، نماز کی اہمیت وفضیلت ، احکام نیت، رمضان، زکوٰۃ ، حج قربانی وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے ، حقوق العباد کے ضمن میں والدین، رشتہ داروں، پڑوسیوں ، ضرورت مندوں کے حقوق پرقلم بند کیے گیے ہیں ، شراب نوشی کے دینی ودنیوی نقصانات پر بھی گفتگو کی گئی ہے ، حقیقت جن، تعویز ،گنڈے، صبح وشامل کے اذکار پربھی اچھی گفتگو شامل کتاب ہے ۔

شاہ انظار کریم فریدی کی اس کتاب کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر اصلاح کا جوش وجذبہ پورے طور پر موج زن ہے، وہ شریعت کے احکام بلاواسطہ نصوص سے اخذ نہیں کر سکتے، اس لیے ان کے مطالعہ کا مرکز ومحور زیادہ تر ان موضوعات پر لکھی اردو کتابیں رہی ہیں، قرآن کے تراجم سے انہوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے، آیات واحادیث کے حوالہ کا اہتمام تو کیا ہے ، لیکن اس میں جدید انداز کو نہیں برتا ہے ، کتابوں کا نام لکھ دینا ہی کافی نہیں ہے ، اس کے باب اور احادیث کے نمبرات کا اندراج بھی ضروری ہے ، بلکہ اس قسم کی کتابوں میں میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آیات قرآنی اور حادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل متن ، عربی عبارت مع اعراب کے درج کرنا چاہیے،ا س سے دو فائدے ہیں، ایک تو یہ کہ قاری کا ذہن مطمئن ہو کہ یہ فلاں کتاب سے ماخوذ ہے، ہوا میں تیر نہیں چلائی گئی ہے ، دوسرے اگر قاری ان آیات واحادیث کو یاد کرنا چاہے تو اسے عربی عبارت کے یاد کرنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، تجربہ سے یہ بات معلوم ہے کہ اردو ترجمہ حافظہ کی گرفت سے جلد نکل جاتا ہے اور عربی عبارتیں ایک بار یاد کر لی جائیں تو مدتوں ذہن کے نہاں خانے میں محفوظ ہوجاتی ہیں، مصنف نے کہیں کہیں اس کا التزام کیا ہے، لیکن یہ کم ہے، شاید کتاب کی ضخامت کو کم کرنے کے لیے ا نہوں نے ایسا کیا ہے ، یا پھر وہ قاری کے ذہن کو حوالہ دے کر بوجھل نہیں کرنا چاہتے، حوالوں کی کثرت سے مطالعہ کا تسلسل ٹوٹتا ہے، لیکن بہر کیف حوالوں کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔

دوسری کمی اس کتاب میں مضامین کی ترتیب کی ہے، شاہ انظار کریم فریدی کے حاصل مطالعہ کو مولانا انظر خان قاسمی کی صحیح معاونت مل جاتی تو مندرجات کے اعتبار سے اسے زیادہ مفید بنایا جا سکتا تھا، اس کتاب میں نہ حقوق اللہ کی درجہ بندی ہے اور نہ حقوق العباد کی، کیف ما اتفق قدیم بیاض کے انداز میں مضامین کا اندراج کر دیا گیا ہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے حقوق اللہ کے عنوانات کی فہرست ہوتی ، پھر حقوق العباد کی درجہ بندی کی جاتی ، اس طرح حقوق اللہ اور حقوق العباد کے حوالہ سے جو بہت ساری چیزیں رہ گئیں ، وہ بھی کتاب کا حصہ بن جاتیں۔

کتاب میں پروف کی اغلاط بھی کافی ہیں، ان پر سخت محنت کی ضرورت ہے ، یقینا کتابوں میں غلطیاں رہ جاتی ہیں، لیکن اس قدر نہیں کہ ہر صفحہ میں دو چار اغلاط نکل آئیں، اس سے کبھی تو معنی تک پہونچنا ممکن نہیں رہتا اور کبھی دشوار تر ہوجاتا ہے، اس لیے اس طرف توجہ کی بھی خاص ضرورت تھی ۔

کتاب کے مندرجات مفید ہیں، لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اس کی اشاعت کا جذبہ نیک ہے، شاہ انظار کریم فریدی سے میری کئی ملاقاتیں رہی ہیں، میں انہیں مخلص سمجھتا ہوں او ربھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے کی ان کی جد وجہد کو پسند کرتا ہوں، ان کی کوششوں کی قدر کرتا ہوں، جو باتیں لکھی گئیں وہ اس کتاب کی قدر وقیمت کو کم کرنے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ اسے مزید مفید اور کار آمد بنانے کے لیے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کے فائدہ کو عام وتام فرمائے اور جن مقاصد کے لیے اسے ترتیب دیا گیا ہے اس کی تکمیل میں معاون بنائے اور مصنف کو ان کے اخلاص ، محنت ، جد وجہد اور لوگوں کو دین تک لانے کی مہم کا بہترین اجر عطا فرمائے، آمیں یا رب العالمین

متعلقہ خبریں

Back to top button