مضامین

ترجمہ: تعریف، اہمیت اور اقسام

شجیع اللہ فراست

ترجمہ دراصل تخلیق ہے ۔ ہر وہ چیز تخلیق ہوتی ہے جو غیرموجود ہوتی ہے اور اسے پھر کوئی وجود میں لاتا ہے۔ دنیا میں ہر چیز ترجمہ یا ٹرانسلیشن ہے۔ ترجمہ ایک شکل سے دوسری شکل میں مواد کی منتقلی کانام ہے۔ کوئی سائنسداں ہو ،سیاستداں، انجینئر ،ادیب یا کوئی اور ہر پیشہ ور پہلے اپنے ذہن میں کچھ سوچتا ہے پھرکہتا ہے، منصوبہ بناتا ہے اوراسے عملی شکل دیتا ہے یا ٹرانسلیٹ کرتا ہے۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ ہر شخص فطری ٹرانسلیٹر ہوتا ہے۔ بس ٹرانسلیشن یا ترجمہ کی اس صلاحیت کو کچھ نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔آج ہم ایک زبان سے مواد کی دوسری زبان میں منتقلی کی بات کریں گے اور اس میں ہماری خصوصی توجہ خبروں کے ترجمہ بالخصوص انگریزی سے اردومیں خبروں اور مواد کے ترجمہ پرہوگی۔

 

ترجمہ کامطلب سورس لنگویج سے ٹارگٹ لنگویج میں مفہوم کی منتقلی ہے۔ یہاں میں نے مفہوم کی منتقلی کہا ہے۔ لیکن کئی ترجمہ نگار مفہوم کے ترجمہ کی بجائے لفظی ترجمہ پر توجہ دیتے ہیں اگرچہ لفظی ترجمہ بھی ترجمہ کی ایک قسم ہے لیکن اس طرح کے ترجمہ سے میری دانست میں ترجمہ کا مفہوم ادا نہیں ہوتا ہے۔ ایسے لوگ دراصل سورس لنگویج میں اپنے فہم کے تیئں پر اعتمادنہیں ہوتے۔ شاید ان میں کہیں یہ اندیشہ پایاجاتا ہے کہ کہیں ان کی کم استعداد ظاہر نہ ہوجائے۔ بظاہر وہ سیو کھیلنا چاہتے ہیں اور لفظ پر لفظ کوبیٹھاکر اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار کرتے ہیں لیکن ایسے ترجمہ نگار کہیں نہ کہیں اصحاب علم کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے ۔ایسے ترجمہ کوحرف عام میں مکھی ٹومکھی ترجمہ بھی کہتے ہیں۔ اس طرح کے ترجمہ کی چندمثالیں ہم آگے دیکھیں گے ۔ جب ہم ترجمہ کی اقسام کے بارے میں تفصیل سے بات کریں گے ۔

ترجمہ ایسا ہونا چاہئے کہ اس پر حقیقی مواد یا اوریجنل کنٹنٹ کا گمان ہو۔انگریزی کااپنا مزاج ہوتا ہے۔ اردو کا اپنامزاج ۔ انگریزی کی اپنی تہذیب وتراکیب ہوتی ہے۔ اردو کا اپنا لہجہ ہوتا ہے۔ اصل ترجمہ بامحاورہ ترجمہ ہوتا ہے۔ لفظ پرلفظ بیٹھانے کی بجائے ہمیں پہلے انگریزی متن کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے اور پھر اس کا مفہوم اردومیں ادا کرنا چاہئے۔ اگرآپ نفس مضمون سے واقف ہیں توآپ کے ترجمہ میں نکھار آسکتا ہے۔ اگرآپ سورس لنگویج کا مفہوم ٹارگٹ لنگویج میں ادا نہیں کررہے ہیں توشاید آپ بددیانتی کے مرتکب ہورہے ہیں اور آپ ایک ناکام ترجمہ نگار ہیں۔

 

بامحاورہ اور بہترین ترجمہ کیلئے آ پ کو دونوں زبانوں کے مزاج ،تراکیب ،انداز اور قواعد سے واقف ہونا چاہئے اور یہ خصوصیات آپ صرف اور صرف مطالعہ سے حاصل کرسکتے ہیں۔ میرے خیال میں سوشیل میڈیا ،ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کبھی بھی کتابوں اور اخبارات کے مطالعہ کا بدل نہیں ہوسکتے ہیں ۔آپ کو ہمیشہ کتابیں،اخبارات و رسائل پڑھتے رہنا چاہئے۔ سڑک پر تقسیم جانے والے اشتہارات سے لیکر ادب عالیہ تک آپ کو تمام موضوعات ومضامین کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔مطالعہ کبھی بیکار نہیں جاتا ۔ مطالعہ سے حاصل کردہ علم ایک ایسی دولت ہے جسے آپ سے کوئی چھین یا چرانہیں سکتا۔ترجمہ ایک زبان کے مفہوم کوایک نیاقالب عطا کرنے کانام ہے۔ ترجمہ نگار کوخود ایک اچھا ادیب یاصحافی ہونا لازمی ہے۔ ایک اچھے ترجمہ نگار کا اپنا ایک اسلوب ہوناضروری ہے اوریہ اسلوب آپ کومسلسل مطالعہ اور طبع آزمائی سے حاصل ہوتا ہے۔ترجمہ ایک لحاظ سے تخلیق سے مشکل کام ہے۔ تخلیق میں آپ اپنی مرضی سے کچھ بھی لکھ سکتے ہیں لیکن ترجمہ میں آپ کو کسی اور کے تحریر کردہ مواد کو ایک دوسری زبان اور پیرائے میں بیان کرنا ہوتا ہے۔ اگرآپ اس میں کچھ اونچ نیچ کرتے ہیں تو یہ اصل لکھنے والے کے ساتھ زیادتی ہے۔

 

دوسری زبانوں کی بہ نسبت اردومیں ترجمہ کچھ زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کی کچھ سیاسی ومعاشرتی وجوہات ہیں۔ اردوزبان ہندوستان میں سرکاری سرپرستی سے محروم ہے۔ اس کے علاوہ خود اردووالے اردو سے بے اعتنائی برت رہے ہیں۔ اردو داں طبقہ شائد دنیا کا واحد طبقہ ہے جو اپنی زبان کے تحفظ سے بے پرواہ ہے۔ بیسویں صدی کی ابتداء میں جب اردو کا بول بالاتھا۔حیدرآباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں اردوذریعہ تعلیم ہوا کرتاتھا۔ قانون،طب اور انجینئرنگ جیسے مضامین بھی اردو میں پڑھائے جاتے تھے اور دوسری زبانوں کے تکنیکی الفاظ کواردو میں قالب میں ڈھالنے کیلئے اصلاحات وضع کی جاتی تھیں اور اس کے لئے ایک وسیع محکمہ کام کرتاتھا جسے دارالترجمہ کہا جاتا ہے ۔عثمانیہ یونیورسٹی کے ابتدائی ادوار میں ملک کے مختلف مقامات سے اردو زبان کے ادیبوں ،پروفیسرس ،اسکالرس اور دیگرماہرین کو طلب کیاجاتاتھا اوران کی خدمات دارالترجمہ کیلئے حاصل کی جاتی تھی۔ لیکن اب سیاسی ودیگروجوہات کی بناء پر اردوزبان کے ارتقاء کا یہ عمل مسدود ہوگیا ہے۔ اس وجہ سے 21ویں صدی میں مختلف علوم میں ہونے والی تحقیق وترقی اور اس سے جڑی اصطلاحات پر کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔ یہ اردو مترجمین کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ان حالات میں جب کوئی نئی اصلاحات آتی ہیں تو اردو مترجمین بڑی الجھن کا شکار ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اصطلاح آسان اور عام فہم ہے اوراس کا چلن ہے تواسے من وعن استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔اردو لشکری زبان ہے ۔یہ عربی،فارسی، ترکی اوردیگرزبانوں کے امتزاج سے بننے والی ایک فطری زبان ہے۔ اردوآج بھی فراخدل ہوسکتی ہے اور دوسری زبانوں کے الفاظ کواپنے آپ میں سموسکتی ہے۔

 

اردو کے مترجمین میں یہ عام رجحان ہے کہ وہ اپنی زبان اور ترجمہ نگاری میں زیادہ سے زیادہ فارسی اور عربی الفاظ اور تراکیب کوٹھوستے ہوئے اسے مشکل بنارہے ہیں۔ اس کے برخلا ف جب ہم ہندی ذرائع ابلاغ کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ اردو الفاظ کے استعمال کو عار نہیں سمجھتے اور اردو الفا ظ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہوئے قارئین،سامعین اور ناظرین کیلئے آسانیاں پیدا کررہے ہیں۔ اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ ہم زبان کے معیار پرمفاہمت کریں۔ اس بات کوپیش نظر رکھنا لازمی ہے کہ ترجمہ قابل قبول ہو اور اس میں قابل قبول اور قابل فہم الفاظ استعمال کیے جائیں۔ الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ایک صحافی کی حیثیت سے میں بالخصوص الیکٹرانک میڈیا میں جمع بنانے کے عربی اور فارسی قاعدوں سے پرہیز کابھی حامی ہوں اورشائد یہ وقت کا تقاضہ ہے۔زبانیں ہمیشہ ارتقائی مراحل سے گذرتی ہیں ۔یہ بات صرف اردو کے لئے نہیں ہے ۔شیکسپیئر کا انداز آپ آج کی انگریزی میں نہیں کرسکتے۔ بائبل کی زبان کچھ او ر تھی ۔ خطوط غالب اردو نثر کا ایک شہ پارہ ہے لیکن آپ آج شائد ترسیل کیلئے وہ اندازاستعمال نہیں کرسکتے۔ زبانوں کے جدید رجحانات سے ہم آہنگ رہنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے یعنی مطالعہ۔ اگرآپ مطالعہ ترک کردیں گے توآپ ایک معذور مترجم بن جائیں گے۔ ہمارے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ آپ سومضامین پڑھیں اورایک مضمون لکھیں۔ لیکن دیکھایہ جارہا ہے کہ لوگ پڑھ نہیں رہے ہیں اور لکھتے جارہے ہیں۔

 

ترجمہ کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ترجمہ نے ہی دور جدید کے انسان کودور قدیم انسانوں سے ان کی تہذیب ومعاشرت سے روشناس کیا ہے۔ ایک خطہ کے انسانوں نے دوسرے خطہ اورسماج کے انسانوں سے تعلق قائم کرنے کے لئے ترجمہ کا ہی سہارا لیا ہے۔ قدیم یونانی فلسفیوں سقراط اور افلاطون نے ہزاروں سال پہلے اپنے علوم ،مشاہدات اور تحقیق کو اپنی زبانوں میں قلمبند کیا ۔ اسلامی تاریخ کے سنہرے دور میں عربی اسکالرس نے اس مواد کو عربی میں منتقل کیا اور سقراط وارسطو اور افلاطون کی تحریروں کودوام بخشا۔ اگر بوعلی سینا ،ابن رشد اور نصر فرابی جیسے اسکالرس یہ کارنامہ انجام نہیں دیتے تو قدیم یونانیوں کے شہ پارے کھنڈرات میں دب کر ناپید ہوجاتے۔ عباسی سلطنت کے زوال اور یوروپی اقوام کے عروج کے دوران عربی تراجم کو لاطینی زبانوں میں ڈھالاگیا۔ اسی وجہ سے انسانی تاریخ کے اس سرمایہ کومحفوظ کیاگیا اور اسی کی بنیاد پر ہم نے دور حاضر کے جدید علوم تک کا ارتقائی سفر طئے کیا۔ لہذا ایک زبان سے دوسرے زبان میں ترجمہ کی اہمیت وضرورت سے کوئی انکارنہیں کرسکتا۔ ترجمہ ہی نے انسانوں اورقوموں کے درمیان حائل دیواروں کو توڑا ہے اورترجمہ ہی اقوام عالم کے عروج وزوال کا باعث بنا ہے۔ ترجمہ کی اہمیت کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ ایک غلط ترجمہ نے سرد جنگ کے دوران دنیا کوتباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیاتھا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ نکیتا خروشوف جب سویت یونین کے لیڈر تھے اور نہرسوئز کا بحران پیدا ہواتھا ۔انہوں نے ایک بیان دیاتھا غالباً یہ1956کی بات ہے کہ نیکتا خروشوف کے اس بیان کی خبر اس سرخی کے ساتھ دنیابھر کے اخبارات میں شائع ہوئی کہ ہم تمہیں دفن کردیں گے۔ اس بیان کایہ مطلب لیاگیا کہ سویت یونین اس وقت کی دوسری سوپر پاور امریکہ کے خلاف نیوکلیر اسلحہ استعمال کرے گا ۔اس طرح اس وقت کی دوبڑی طاقتیں جنگ کے دہانے پرپہنچ گئیں اور پوری دنیا خوف کے عالم میں مبتلا ہوگئی لیکن بعد میں وضاحت کی گئی کہ نکیتا خروشوف نے جوایک روسی دیہات سے تعلق رکھتے تھے اپنے دہقانی انداز میں ایک محاورہ کا استعمال کیا۔ دراصل وہ یہ کہناچاہتے تھے کہ کمیونزم سرمایہ دارانہ نظام کوختم کردے گا۔

 

ماہرین ترجمہ کی کئی اقسام بتاتے ہیں۔ جن میں پہلا لفظی ترجمہ ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے میں عرض کرچکا ہوں کہ لفظی ترجمہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگرآپ اپنے کام کی سہولت کیلئے لفظی ترجمہ سے کام چلاتے ہیں تو آپ اصل مضمون نگار اور قاری دونوں کے ساتھ ناانصافی بلکہ ظلم کررہے ہیں۔ بعض مترجمین لفظی ترجمہ کودیانت دارانہ ترجمہ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی کم فہمی کو لفظ پرلفظ بیٹھاکرچھپانا چاہتے ہیں لیکن اس ترجمہ کا فائدہ ہی کیا ہے جب آپ صحیح مفہوم پیش نہ کرسکیں۔ اس طرح کے ترجمہ سے آ پ ترجمہ کی ذمہ داری توپوری کردیں گے لیکن مواد کی اصل روح کوٹارگٹ لنگویج میں منتقل نہیں کرسکتے۔ بعض اوقات اس طرح کا ترجمہ مضحکہ خیز بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال جومیرے مشاہدہ میں رہی جو میں دینا چاہوں گا۔ میرے صحافت کے ابتدائی دنوں میں انگریزی میں ایک اسپورٹس کی خبر تھی ۔جس کی عبارت کچھ اس طرح تھی۔

Sachin Tendulkar has Slaghtered Australian Bowlers in Sharja۔ اس عبارت کا ترجمہ میرے ایک جزوقتی صحافی دوست نے کچھ یوں کیا کہ سچن ٹنڈولکر نے شارجہ میں آسڑیلیائی بولرس کوذبح کردیا۔ اس کی صحیح عبارت یہ ہوسکتی تھی کہ سچن ٹنڈولکر نے شارجہ میں آسڑیلیائی بولرس کی دھجیاں اڑادیں۔

لفظی ترجمہ جہاں مضحکہ خیزہوسکتا ہے وہیں یہ بھی ایک مشکل کام ہے۔ اس کے بجائے بہترہوگاکہ لفظی ترجمہ کے مقلد ہی مفہوم کے ترجمہ کواختیار کرنے پر توجہ دیں۔

ترجمہ کی ایک قسم بامحاورہ ترجمہ ہے اور میرے نزدیک یہ ترجمہ کی سب سے احسن شکل ہے۔ اس قسم کے ترجمہ میں ترجمہ نگار اصل مواد کی روح اور جذبہ کواس کے حقیقی شکل میں قاری تک پہنچاسکتا ہے۔ بامحاورہ ترجمہ کا یہ مطلب ہے کہ مواد کواصل زبان یعنی سورس لنگویج سے ترجمہ کی زبان یعنی ٹارگٹ لنگویج میں اس طرح منتقل کریں کہ اس پر اصل تحریر کا گمان ہو۔ اس طرح کے ترجمے نہ صرف اصل مصنف کے مفہوم کومن وعن ادا کرتے ہیں بلکہ قارئین کو مطالعہ کی چاشنی بھی فراہم کرتے ہیں۔

آزاد ترجمہ بھی ترجمہ کی ایک قسم ہے لیکن اسے ترجمہ سے زیادہ تلخیص کہنا مناسب ہوگا۔ اس طرح کے ترجمہ میں ترجمہ نگار کئی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے۔ یہ ترجمہ مواد کو اس کی اصل شکل میں پیش نہیں کرتا بلکہ کہیں نہ کہیں مترجم اپنے خیالات،جذبا ت واحساسات بھی کہیں نہ کہیں ٹارگٹ لنگویج میں منتقل کرتا ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے اصل مصنف ،شاعر ،ترجمہ نگار یا رائٹر کے ساتھ بددیانتی ہے۔ مترجمین اپنی سہولت کے لئے آزاد ترجمہ کواختیار کرتے ہیں ۔ایسا ترجمہ زیادہ مشکل نہیں ہوتا اوراس میں زیادہ وقت بھی صرف نہیں ہوتا۔ ہاں کبھی کبھی اپنے ٹارگٹ آڈینس کومطمئن کرنے کیلئے آزاد ترجمہ کا سہارا لیاجاسکتا ہے۔ آزادترجمہ میں مترجمین کیلئے یہ سہولت بھی ہوتی ہے کہ وہ آسانی سے مواد کو سورس لنگویج میں منتقل کرتا ہے ۔

ترجمہ کو موضوعاتی اقسام میں بھی تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ جن میں علمی ترجمہ، ادبی ترجمہ ،مذہبی ترجمہ اور صحافتی ترجمہ شامل ہے۔ علمی ترجمہ میں تمام سائنسی وتکنیکی علوم کی کتابیں آتی ہیں۔ عموماً علمی ترجمہ میں لفظی ترجمہ کا زیادہ استعمال کیاجاتا ہے لیکن میں یہ بات دہرانا چاہوں گا کہ لفظی ترجمہ ایک احسن ترجمہ نہیں ہے ۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ مفہوم کی صحیح ادائیگی سورس لنگویج کے لب ولہجہ میں ہو اور حسب ضرورت لفظ بہ لفظ بیٹھانے کی بجائے ترجمہ میں انگریزی یا دیگرزبانوں کی مروجہ اور عام فہم اصطلاحات شامل کی جائیں۔ترجمہ کی ایک اور قسم ادبی ترجمہ ہے ۔ادبی تراجم نظم ونثر دونوں کے ہوسکتے ہیں۔ اس ترجمہ میں ترجمہ نگار کے فن ،ہنر اور استعداد کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ اس کے لئے صحافتی ترجمہ کی بہ نسبت ترجمہ نگار کو دونوں زبانوں یعنی سورس لنگویج اور ٹارگٹ لنگویج میں یکساں مہارت ضروری ہے اگر دونوں زبانوں میں یکساں مہارت کا فقدان ہے تو اس طرح کے تراجم کی ذمہ داری سے معذرت ہی بہترہے۔مذہبی ترجمہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کیوں کہ مذہب اور مسالک سے بے شمار افرادکے عقائد جڑے ہوتے ہیں۔ اس لئے سب سے زیادہ احتیاط مذہبی تراجم میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کے تراجم میں بعض اوقات لفظی ترجمہ مترجم کی مجبوری ہوسکتا ہے لیکن حتی الامکان یہاں بھی بعض ملحوظات کے ساتھ مفہوم کومنتقل کرنے پرہی توجہ دینی چاہئے۔ میں نے مولانا وحید الدین خاں کے ایک ترجمہ کا مطالعہ کیا ہے جس میں یہی طریقہ اختیار کیاگیاہے ۔ مذہبی ترجمہ کی جسارت سے قبل لازمی ہے کہ ترجمہ نگار نہ صرف مذہبی مضامین ، اصطلاحات بلکہ مذہب سے جڑے جذبات واحساسات سے بھی اچھی طرح واقف ہو۔

 

فی زمانہ اردومیں جوسب سے زیادہ ترجمہ ہورہا ہے وہ بلاشبہ صحافتی ترجمہ ہے۔ اردو کے زوال کے اس دور میں بھی بے شمار روزنامے،رسائل وجرائد شائع ہورہے ہیں۔ اگرچہ کہ ان میں سے بیشتر کی تعداد اشاعت قابل فخر نہیں ہے جس کی وجہ اردوداں طبقہ میں اردو نوشت خواند کی کمی ہے ۔ دیگر تراجم بشمول علمی ،ادبی ومذہبی تراجم کی بہ نسبت صحافتی تراجم آسان ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ صحافت میں بالعموم و ہ مضامین ومطالب بیان کیے جاتے ہیں جن سے معاشرہ کے بیشترافراد واقف ہوتے ہیں۔ ترجمہ نگار بھی نفس مضمون سے آگاہ ہوتا ہے ۔اس وجہ سے صحافتی ترجمہ میں مفہوم کا ترجمہ آسان ہوتا ہے ۔اس میں ایک سہولت یہ بھی ہوتی ہے کہ حسب ضرورت جملوں کوتوڑاجاسکتاہے۔ خبروں کوطویل اور مختصر کیاجاسکتا ہے۔ صحافتی ترجمہ میں ادبیت شرط اول نہیں ہے بلکہ ترجمہ کی عبارت کا سہل ہونا خوبی سمجھاجاسکتا ہے۔ اردواخبارات ورسائل میں مشکل اصطلاحات کے لئے لغت سے کام لیاجاتا ہے ۔اگرکوئی مترجم کسی لفظ یامضمون سے واقف نہیں ہے تو اس کے لئے لغت یا انٹرنیٹ سے مدد لینے اورکسی جانکار سے دریافت کرنے میں اسے کوئی پرہیز بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ آج کل گوگل ٹرانسلیشن کی بھی سہولت ہے لیکن مشینی ترجمے بعض اوقات آپ کو لے ڈوب سکتے ہیں ۔ صحافیوں کوعام طورپر تمام موضوعات مثلاً سیاسیات، ادب ،تاریخ اور کھیل کود وغیرہ سے مانوس ہوناچاہئے۔ اکثر دیکھاگیا ہے کہ کی اردوصحافی عدالتی خبروں اور اسپورٹس کی خبروں کے علاوہ سائنس وٹیکنالوجی کی خبروں سے پلہ جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں یا اس طرح کی خبریں ان کے بس کی بات نہیں ہوتیں۔ اس صورتحال میں بہ حالت مجبوری وہ گوگل ٹرانسلیٹر کی خدمات حاصل کرتے ہیں لیکن میرے ایک ساتھی کی کاوش انتہائی مضحکہ خیز ثابت ہوئی۔ وہ اس طرح سے کہ انہوں نے گوگل کے ایک ترجمہ کومن وعن استعمال کیا جو صحافی گوشوں میں مذاق کا موضوع بن گیا۔ اس خبر کی ایک عبارت کچھ یوں تھی Second Seed Sania Mirza Will Play at Wimbelden Today، اس کا ترجمہ میرے ایک ساتھی نے گوگل کی مدد سے کچھ یوں چھاپ دیا۔دوسرے بیچ کی کھلاڑی ثانیہ مرزا آج ومبلڈن میں کھیلیں گی۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button