حج کا ادا کرنا اللہ کا ایک انعام ہےمکہ میں ایک نماز اپنے دامن میں ایک لاکھ نماز کا اجر و ثواب رکھتی،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

حج کا ادا کرنا اللہ کا ایک انعام ہےمکہ میں ایک نماز اپنے دامن میں ایک لاکھ نماز کا اجر و ثواب رکھتی،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
حیدرآباد 26اپریل(پریس ریلیز) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے امسال حیدرآباد ایمبارکیشن پوائنٹ سے روانہ ہونے والے تمام عازمین کی آمد آمد کا خیرمقدم کرتے ہوئے بتلایا کہ حکومتِ تلنگانہ بشمول آندھرا پردیش کے 1,200 عازمین، کو مکمل عزت و احترام اور سہولتوں کے ساتھ رخصت کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ اے. ریونت ریڈی نے واضح ہدایت دی ہے کہ کسی بھی حاجی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ "تلنگانہ حج کمیٹی اس بات کے لیے پرعزم ہے کہ تمام عازمین کو ایک پُرامن، آرام دہ اور روحانی طور پر تسکین بخش تجربہ فراہم کیا جائے۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے حج کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہوئے بتلایا کہ مکہ مکرمہ اس پوری کائناتِ ارضی میں وہ بابرکت جگہ اور رحمتوں والا مقام ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے شہروں سے بڑھ کر اعلیٰ و مقدس شہر کی حیثیت عطا کی ہے۔ اللہ رب العزت نے اس شہر دلنواز اور اس مرکزِ بخشش کو خلعتِ انوار میں لپیٹے ہوئے اپنے برگزیدہ بندے اور عالم خلق میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہستی امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کے لئے منتخب کیا۔ اپنے دین کی اشاعت اور ترویج و فروغ اور اپنے گھر بیت اللہ شریف کا حج کرنے کے لئے اس شہر بےمثال کو منتخب فرمایا، اسی وجہ سے اس ارض مقدس کو دنیا بھر کے شہروں پر فضلیت و برتری عطا کی سرِزمین مکہ وہی جگہ ہے جسے خود رب العزت نے لوگوں کے دلوں میں محبت کے لئے منتخب فرمایا اور پھر انہیں یہاں حج کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں او راعتکاف کرے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو۔‘‘دنیا کا یہ واحد بابرکت شہر ہے جس کو امن کی جگہ بنانے اور اسے نوع بہ نوع پھلوں سے نوازنے کے لئے جد الانبیاء خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوئے۔ قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس التجا کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:’’اور جب ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز (یعنی) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے، (اللہ نے) فرمایا اور جو کوئی کفر کرے گا اس کو بھی زندگی کی تھوڑی مدت (کے لیے) فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے (اس کے کفر کے باعث) دوزخ کے عذاب کی طرف (جانے پر) مجبور کر دوں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔‘‘یہ شہر خوباں نزول وحی و ملائکہ کا مرکز، انبیاء و اولیاء کا ٹھکانہ و مدفن، ہر چیز کی پیدائش کا موجب و سبب اور ہر انعامِ خداوندی کی بنیاد ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی واضح اور کھلی نشانیاں ہیں جن کی زیارت سے جہاں ایمان کو حلاوت اور چاشنی ملتی ہے وہاں استقرار و استحکام بھی میسر آتا ہے۔ ان ہی میں سے مقام ابراہیم ہے، صفا و مروہ ہے، آب زم زم و حجرِ اسود ہے، حتیٰ کہ یہی وہ شہر ہے جس میں اللہ کا گھر ’’بیت اللہ‘‘ ہے جس میں ادا کی جانے والی ایک نماز اپنے دامن میں ایک لاکھ نماز کا اجر و ثواب رکھتی ہےاس کے ارد گرد تین سو انبیاء علیھم السلام کے مزارات ہیں، اس شہر امن میں داخل ہونے والے کو امن و امان مل جاتا ہے۔ خونریزی و سفاکی کی یہاں ممانعت ہے کسی بھی انسان کا حق و ناحق خون نہیں بہایا جاسکتا۔ اس عظمت و بزرگی والے شہر میں حلال تو درکنار حرام جانور کا شکار بھی گناہ ہے۔ اس کے درختوں اور شاخوں کا کاٹنا بھی حرام ہے۔ یہ اس قدر امن والا شہر ہے کہ ہر ذی روح اور غیر ذی روح اس کے سائے میں محفوظ و مامون ہے۔ یہاں قدم قدم پر عافیت کے شامیانے نصب ہیں۔ امن و سکون اور رحمتوں کا بحرِ بےکنار، یہ وہ عظیم الشان شہر ہے جس کی عظمت اور فضلیت کی خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں قسمیں کھائی ہیں۔’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔‘‘
اسی طرح مکہ مکرمہ کی فضیلت حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کر کے اظہارِ محبت یوں فرمایا:’’تو کتنا اچھا شہر ہے اور مجھے کتنا عزیز ہے اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔‘‘: کعبۃ اللہ کی فضیلت کی اس سے بڑی وجہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اس گھر سے محبت فرماتا ہے جس کا ذکر سورہِ حج کی درج ذیل آیت کریمہ میں ہے جہاں جد الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ میرا گھر حج اور طواف کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو:
’’اور (وہ وقت یاد کیجیے) جب ہم نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے بیت اللہ (یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر) کی جگہ کا تعین کر دیا (اور انہیں حکم فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور میرے گھر کو (تعمیر کرنے کے بعد) طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کر نے والوں اور سجود کرنے والوں کے لیے پاک و صاف رکھنا۔‘‘اس سے اگلی آیت کریمہ میں یہ مضمون محبت Climax پر پہنچ گیا ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ اب تمام لوگوں کو بآواز بلند میرے گھر کے حج (اور طواف) کے لئے بلاؤ (سبحان اللہ) پھر خود ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھنا پھر میرے بندے دور و نزدیک سے کیسے کھنچے چلے آتے ہیں:
’’اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو وہ تمہارے پاس پیدل اور تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہو جائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے ہیں۔‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ میں بھی کعبۃ اللہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے بیت اللہ کی زیارت کی پھر یہاں کسی سے جھگڑا، بد زبانی اور فساد نہ کیا تو:
’’وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک پیدا ہوا تھا۔‘‘
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ دن رات کعبۃ اللہ پر ایک سو بیس رحمتوں کا نزول فرماتا ہےان میں ساٹھ طواف کرنے والوں کیلئے، چالیس نماز پڑھنے والوں کیلئے:’’اور بیس ان لوگوں کیلئے جو کعبۃ اللہ کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو منور کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’اس عزت والے گھر کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔‘‘حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’یہ گھر اسلام کا ستون ہے‘‘جو شخص اس کی زیارت کے ارادہ سے نکلا خواہ وہ حج کی نیت کرنے والا ہو یا عمرہ کی تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے اگر وہ فوت ہوگیا تو اسے جنت میں داخلہ نصیب ہو گا۔
حج کا ادا کرنا اللہ کا ایک انعام ہے۔رہتی دنیا تک حج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے عازمین حج سے کہاکہ پہلی مرتبہ کعبۃ اللہ پر نظر پڑھتے ہی جو دعا کی جائے گی وہ بہت بہترین اور قیمتی وقت ہوگا اور اللہ سے گڑگڑاکر عاجزی کے ساتھ دل سے دعا کرنا، عبادت کرنا، تلاوت قرآن کرنا اللہ کو بہت پسند ہے۔ اللہ کی ذات پختہ ایمان کے ساتھ دعائیں کرنے، عبادتیں کریں اور زیادہ سے زیادہ وقت کعبۃ اللہ میں گذاریں جو بہترین عبادت کہلائی جائے گی