جنرل نیوز

اردو ‘ پیار ومحبت کی عالمی زبان ـ ہندوستان کی ترقی میں نہایت ہی اہم کردار   

حیدرآباد 26- اپریل ( پریس نوٹ ) شعبہ اردو اندرا پریہ درشنی گورنمنٹ ڈگری کالج برائے نسواں نامپلی کے زیر اہتمام تلنگانہ کونسل آف ہائیر ایجو کیشن وتلنگانہ اردو اکیڈیمی کے تعاون سے 25- اور 26- اپریل کو دوروزہ قومی سمینار بہ عنوان ” اردو ناول سمت ورفتار”منعقد ہواناول نگار محترمہ قمر جمالی نے کلیدی خطبہ دیا پروفیسر راجندر سنگھ جوائنٹ ڈائریکٹرکمشنریٹ کالج آف کالجیٹ ایجوکیشن نے شعبہ اردو کے ذمہ داروں کو سمینار کے انعقاد پر مبارکباد دیتے ہوۓ کہاکہ اردو ایک عالمی وطاقتور زبان ہے ہندوستان کی ترقی میں اردو زبان کا کردار اہم ہے اردوزبان ہمارے ملک کی تہذیب وثقافت کو ظاہر کرتی ہے

 

انہوں نے کہاکہ ناولوں نے اردو کی ترقی وبقاء میں اہم کردار اداکیا ہے ہندوستانی ناولس کی دنیا بھر میں کافی شہرت ہے صدرشعبہ اردو ڈاکٹر عظمت اللہ نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا خیر مقدم کیا کنوینر سمینارڈاکٹر رضوانہ بیگم اسسٹنٹ پروفیسر اردو ‘ ڈاکٹر امتہ الوہاب اسسٹنٹ پروفیسر ‘ حاجرہ بیگم اسوسی ایٹ پروفیسر ‘جناب محمد امجداللہ لکچررعربک کالج نے کاروائی چلائی ـ پروفیسر ایس اے شکور ڈائریکٹرداٰٰٰئرة المعارف نے سمینار کے انعقاد پر دلی مسرت اور ذمہ داروں کومبارکباد دیتے ہوۓ کہاکہ منشی پریم چند اور دوسروں نے ہمیشہ سماجی مسائل کو اجاگر کیا انہوں نے کسانوں پر زمینداروں کے مظالم اور خواتین کے مختلف مسائل کو پیش کیا

 

اور ان کے حقوق کو بیان کیا پروفیسر ایس اے شکورنے مزید کہا کہ موجودہ دور میں ناول کی صنف سمٹ کر رہ گئی ہے انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کے پاس اب ناولیں پڑھنے کے لئیے وقت بھی نہیں رہا افسانہ لکھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے ناول نگار تو بہت ہی کم رہ گئے ہیں پروفیسرایس اے شکور نے کہا کہ کالجس اور یونیورسٹیز میں سمیناروں میں ناول پر سمینار نہیں ہوتے جبکہ اندراپریہ درشنی میں یہ پروگرام قابل ستائش ہے انہوں نے کہا کہ اگر چہ کہ ریاست تلنگانہ میں اردو کو دوسری زبان کا درجہ دیا گیا ہے لیکن اس پر کس حد تک عمل آوری ہورہی ہے اور اردو والے اردو کی ترقی سے متعلق کتنے سنجیدہ ہیں اس پر غوروفکر ضروری ہے پروفیسر مجید بیدار سابق صدر

 

شعبہ اردوجامعہ عثمانیہ نے کہا کہ ناول کا دور کافی تابناک رہا ہے اردومیں ساگاناول سراج انور نے لکھا تھا موجودہ دور میں جاسوسی ورومانی ناول ازکاررفتہ ہوگئے ہیں انہوں نے انکشاف کیا کہ ہماری جتنی بھی علاقائی زبانیں ہیں ان کے معیار سے بڑھ کر اردو میں ناول لکھے جارہے ہیں لیکن افسو س اس بات کا ہے کہ پڑھنے والے بہت کم ہوگئے ہیں انہوں نے اپیل کی کہ اردو پڑھنے کے لئے تھوڑا وقت ضرور نکالیں سائنسی آلات کی نت نئی ایجادات کے باوجود انسانی تکالیف کا تذکرہ ہمیں ناولوں سے ہی ملتا ہے پروفیسر فضل اللہ مکرم نے کہا کہ اندراپریہ درشنی ڈگری کالج کے شعبہ اردو نےموسم کی اس گرمی میں ادبی سرگرمی دکھائی ہے جو قابل مبارکباد ہے انہوں نے کہا کہ یہ بڑی خوش بختی کی بات ہے کہ 25 سال میں تقریباً 200 ناول لکھے گئے ہیں ڈپٹی نذیر احمد نے پہلاناول لکھا تھاابن صفی نے اردو ناول کو بہت کمال تک پہنچایا لیکن ان کے ناول جاسوسی ہونے کے باعث قارئین کے ایک حلقہ تک محدود ہوکر

 

رہ گئے ناول انگریزی سے ہمارے پاس آیا ہے ناول کا دور سنہرا دوررہا ہے قبل ازیں ناول پڑھنے کا عوام میں کافی جنون پایا جاتا تھا انہوں نے اس موقع پر مرزا غالب کے خطوط اور پریم چند کے ناولوں پر بھی روشنی ڈالی ـ پروفیسر نسیم الدین فریس سابق ڈین فیکلٹی آف لینگویجس مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نےکہاکہ اردوناول نگاروں نے وقت کے تقاضوں کو ہمیشہ اہمیت دی اور عام سماجی مسائل پر لکھا گیا انہوں نے کہاکہ سب سے زیادہ ناول امریکہ میں لکھے اور پڑھے جاتے ہیں اور اخبار ات بھی بڑی تعداد میں شائع ہوتے ہیں جبکہ وہاں کے لوگوں کی مشینی زندگی ہے پھربھی وہاں کے لوگ مطالعہ کے کافی ہوتے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں مصروفیات کا بہانہ بناتے ہوئے عوام کی بڑی تعداد مطالعہ کے ذوق سے دور ہوتی جارہی ہے ادیبہ وفکشن نگار محترمہ قمر جمالی نے اپنے کلیدی خطبہ

 

میں کہا کہ کہانیاں کہنا ‘ اور سنانا ایک خوشگوار عمل ہے ناول دراصل کسی بھی قوم کی تہذیب کا ادبی سرمایہ ہوتا ہے کتابیں زندگی میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں ناول اپنے عصر کا آئینہ ہوتا ہے اس میں سماجی ومعاشرتی حالات ملتے ہیں معاشرہ جو سکھاتا ہے ادیب وہی لکھتا ہے انہوں نےسمینار کے انعقاد پر ڈاکٹر رضوانہ بیگم کو دلی مبارکباد پیش کی وقفہ کے بعد مقالے پڑھے گئے ڈاکٹر عظمت اللہ اورڈاکٹر رضوانہ بیگم نے سمینار کے انعقاد میں تعاون پر پرنسپل کالج ‘ کمشنر آف کالجیٹ ایجوکیشن ‘ تلنگانہ کونسل آف ہائیر ایجو کیشن ‘ تلنگانہ اردو اکیڈیمی سے دلی اظہار تشکر کیااس موقع پر ڈاکٹر عبدالقدوس ‘ ڈاکٹر جاوید کمال ‘ڈاکٹر محمد وحید الدین ‘ڈاکٹر عتیق اقبال ‘ جناب

 

اسرارالحق سبیلی ‘ ڈاکٹر گل رعناء ‘ ڈاکٹر محمد ناظم علی ‘ ڈاکٹر تبسم آراء ‘ ڈاکٹر صالحہ شاہین ‘ ڈاکٹر نکہت آراء شاہین ‘ ڈاکٹر گل رعناء ‘ ڈاکٹر عسکری صفدر’ ڈاکٹر حمیرہ سعید ‘ ڈاکٹر نور محمدی ‘ جناب محمد حسام الدین ریاض’ جناب اسلم عامر ڈاکٹر میمونہ ‘ ڈاکٹرانورالدین ‘ ڈاکٹرسیف اللہ ‘ جناب منصور’ ڈاکٹر وسیم بیگم ‘ ڈاکٹرفصیح الدین ‘ ڈاکٹرعقیل احمد ‘ ڈاکٹر پرویز جگنو ‘ ڈاکٹر غوثیہ ‘ محترمہ ترنم ‘ محترمہ عرفات بیگم ‘ محترمہ سلمیٰ بیگم ‘ محترمہ یاسمین ‘ محترمہ آنچل ‘ ڈاکٹر شبانہ ‘ ڈاکٹر عثمان ‘ ڈاکٹرروحینہ ‘ محترمہ ثمینہ فاطمہ ‘

 

ڈاکٹر صبیحہ سلطانہ ‘ جناب اسلم عامر’ کالج اسٹاف اور طالبات کے علاوہ اردو کی دیگر ممتاز شخصیات نے شرکت کی

متعلقہ خبریں

Back to top button