اردو زبان و تعلیم کی ترقی کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ ضروری۔ پروفیسر اے آر فتیحی
قومی اردو کونسل اور اردو یونیورسٹی (مانو ) کے اشتراک سے منعقدہ سیمنار میں ماہرین کا خطاب

ایم ایس حسن۔سینئر صحافی
بھوپال، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور مانو ریجنل سینٹر، بھوپال کے اشتراک سے آج "اردو ذریعہ تعلیم اور موجودہ تکنیکی منظرنامہ۔ این ای پی 2020 کے تناظر میں” کے موضوع پر ایک روزہ قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ممتاز ماہر لسانیات اور سابق صدر شعبۂ لسانیات پروفیسر اے آر فتیحی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر اشتیاق احمد نے بہ طور مہمان خصوصی شرکت کی۔
افتتاحی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شمس اقبال، ڈائرکٹر قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی نے کہا کہ یہ کثیر لسانیت کا دور ہے۔ ہمیں اردو کے ساتھ دیگر زبانوں سے بھی استفادہ کرنا چاہیے اور ان میں اپنی استعداد بہم پہنچانی چاہیے۔ تبھی ہم کامیاب ہوں گے۔ ہمیں اردو سے متعلق بددل یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انگریزی اور ہندی کے بعد سب سے زیادہ اردو میں ہی ملازمت کے مواقع دستیاب ہیں۔ اردو زبان اور تعلیم کو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور نئی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر اے آر فتیحی نے کہا کہ آج تکنیک کی کار فرمائی زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ ایک بٹن دبانے سے بہت سے امور انجام پا جاتے ہیں۔ اس تکنیک نے بہت سی آسانیاں فراہم کی ہیں لیکن اس سے کچھ نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ ہم ان پر پوری طرح ڈپنڈنٹ ہوتے جارہے ہیں۔ اب ہم اپنی ذہانت و صلاحیت کا کم استعمال کر رہے ہیں۔جن اداروں میں بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں وہاں تکنیکی ترقی کا خواب کیسے دیکھا جائے۔ لیکن اس سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خواب دیکھنا ضروری ہے، خواب دیکھیں تو اس کی تعبیر کے لیے کوشش بھی کریں گے۔
پروفیسر اے آر فتیحی نے ٹی بی ٹی۔ ٹیکنالوجی بیسڈ ٹیچنگ اور اس کی دو اقسام سی بی ٹی۔ کمپیوٹر بیسڈ ٹیچنگ اور ڈبلیو بی ٹی۔ ویب بیسڈ ٹیچنگ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ چیزیں خود رفتار ہیں۔ ان سے اپنی سہولت کے مطابق استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے انسٹرکٹر لیڈ ٹیکنالوجی ، بلینڈڈ لرننگ اور آرٹیفیشیل انٹیلیجنس پر بھی کی اہمیت و افادیت پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس پرسنلائزڈ لرننگ کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس سے تعلیمی میدان میں ایک انقلابی تبدیلی آ سکتی ہے۔انھوں نے خبر دار کیا کہ ٹیکنالوجی کے نام پر اردو رسم الخط سے چھیڑ چھاڑ نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے ہمارے ثقافتی ورثے پر حرف آتا ہے۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر اشتیاق احمد اس قومی سیمنار میں آن لائن شامل ہوئے۔ انھوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، سی بی ایس سی کے اس تازہ ترین فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا جس میں طلبہ کو صرف ہندی اور انگریزی میں جوابات لکھنے کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام این ای پی 2020 کے اصولوں کے منافی ہے جو علاقائی زبانوں یا مادری زبان میں اسکولی تعلیم کی حمایت کرتا ہے۔ اس فیصلے کا براہ راست اثر اردو میڈیم کے طلبہ پر خصوصاً حیدرآباد، دربھنگہ اور نوح میں قائم مانو ماڈل اسکولوں کے طلبہ پر پڑے گا۔ اردو میڈیم طلبہ کے مفادات کا خیال رکھنا اور ان کا تحفظ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
ابتدا میں ڈاکٹر محمد احسن، ڈائرکٹر مانو ریجنل سنٹر، بھوپال نے سیمنار کے موضوع کا تعار کراتے ہوئے کہا کہ تعلیم کا مقصد قوم کی فعال شمولیت کے ذریعے بنیادی کمیوں کو دور کرنا اور ان کی معاشی اور سماجی ترقی ہے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانوں کا ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی رہا ہے۔ ہندوستان میں پیشہ ورانہ تعلیم پر مناسب توجہ دی جا رہی ہے۔ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں نوجوانوں کی کثیر تعداد کو قوم کے لیے سود مند بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مادری زبان میں انہیں پیشہ ورانہ اور تکنیکی تعلیم دی جائے۔ خواہ اس کی ڈگری انجینیئرنگ اور طبی معالج کے مطابق نہ ہو لیکن وہ ایک بہتر روزگار اور انٹرپرینرشپ کے فروغ میں مدد فراہم کرنے والی ہونی چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کے معیار ہر توجہ دی جائے۔ طلبہ کا معیار اچھا ہوگا تو وہ آسانی سے ملازمت بھی حاصل کر سکیں گے۔
افتتاحی اجلاس کی نظامت ممتاز شاعر و ادیب اور مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے سابق سکریٹری ڈاکٹر اقبال مسعود نے کی۔دوسری نششت کی صدارت پروفیسر نعمان خان اور پروفیسر نوشاد حسسیں نے کی ، مجلس کی نظامت کا کام ڈاکٹر نیتی داتا اور ڈاکٹر پروینی پنڈاگلےنے بخوبی انجام دئے – قومی اردو کونسل کی اسسٹنٹ ڈائرکٹر ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی کے اظہارِ تشکر پر اجلاس کا اختتام عمل میں آیا۔ اس موقعے پر مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر تلمیذ فاطمہ ، محمّد سادات خان ، ڈوکوتر زکی ممتاز ، ڈاکٹر فیروز عالم ، ڈاکٹر بھانو پرتاپ پریتم ، ڈاکٹر اندرجیت دتا ،ڈاکٹر ترنّم خان ،ڈاکٹر شبانہ اشرف ، ڈاکٹر محمّد حسن ، ڈاکٹر شیخ عرفان جمیل اور ڈاکٹر شببر احمد شامل تھے۔
اس موقع پر مختلف ماہرین، شہر سے آئے مہمانوں اور یونیورسٹی کے اساتذہ و اسٹاف اور طلبہ طالبات کی کثیر تعداد بھی موجود تھی
–