اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل – جامع مسجد سنبھل کی تاریخ اور تشدد کا زمہ دار کون؟
تحریر:سید سرفراز احمد،بھینسہ تلنگانہ
بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے مسلمانوں کے تیئں یہ صورت حال عالمی سطح سے لے کر ملکی سطح پر نمایاں ہے ایک ظلم سے زخم مندمل ہوتے بھی نہیں کہ دوسرا قطار میں ٹھرا اپنی باری کا انتظار کرتا ہے پھر یہ مضحکہ خیز جملہ کہہ کر اس ملک کے ہندوؤں کو خوف دلایا جاتا ہے کہ اس ملک کا ہندوخطرے میں ہے۔
اس ملک میں مسلمانوں کی اپنی تاریخ رہی ہے جو کسی بھی گوشے یا مذہب سے اوجھل نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ کو یا تو معدوم کرنے کی سازشیں رچی گئی یا تاریخ کو اصل حقیقت سے مستشنی رکھ کر پیش کیا گیا ہے بلکہ پیر یہاں تک بھی پسارے گئے کہ مغلیہ سلطنت کے پہلے بادشاہ بابر اور چھٹے بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر کو کٹر ہندو مخالف پیش کرکے بتایا جاتا ہے خاص طور سے ہندو منادر کو توڑ کر مساجد بنانے کا ایک بڑا الزام ان پر لگایا جاتا ہے جو سواۓ تاریخ سے سوتیلا سلوک ہی نہیں بلکہ تاریخ سے بھونڈا مذاق کہا جاسکتا ہے جس کی ایک کڑی ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد ہے جس پر رام مندر کا دعوی پیش کیا گیا پھر 1992 میں منصوبہ بند سازش سے اس مسجد کو شہید کردیا گیا برسہا برس انصاف کے مندر میں سماعت چلتی رہی پھر دنیا نے دیکھا کہ مسجد کے حق میں ہر طرح کےشواہد کے باوجود کس طرح کا فیصلہ آیا اور فیصلے کے بعد کے حالات کو بھی مظلوم دنیا انصاف کوٹٹولتی آنکھوں سے دیکھتی رہی اور منصف مزے لوٹتا رہا۔
اس فسطائی دور میں رام مندر کے حق میں ایک فیصلے نے وہ تاریخی باالبداخلہ کھول دیا جس کے لیئے فسطائی طاقتیں شدت سے منتظر تھی گیان واپی جامع مسجد پھر متھرا کی شاہی مسجد کو نشانے پر لیا گیا اور عدالتوں کی طرف سے سروے کا بھی حکم دیا گیا اصل سوال یہ ہے کہ 1991 کے عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون ہونے کے باوجود عدالتیں مساجد پر منادر ہونے کا دعوی کرنے والوں کی عرضیاں کیوں قبول کرتی ہیں؟جب کہ اس قانون سے صرف بابری مسجد کیس کو مستشنی رکھا گیا تھا لیکن آج بھی عدالتیں عرضی داخل ہوتے ہی سروے کا حکم دے رہی ہیں تو ورشپ ایکٹ کی اہمیت و افادیت ہی کیا ہے؟
ایسا ہی کچھ اترپردیش کے سنبھل میں ہوا ہے آیئے ہم سنبھل کے حالات کا تجزیہ کرنے سے پہلے سنبھل کی جامع مسجد کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیتے ہیں مقدمہ جامع مسجد سنبھل میں مصباح التواریخ کے حوالے سے یہ بات ملتی ہے کہ 772 ہجری میں شاہ تغلق نے اس جامع مسجد کی تعمیر کروائی تھی اور بابر نے 932 ہجری میں اس مسجد کی توسیع کروائی سنبھل میں جہاں بے شمار آثار قدیمہ اور تاریخی عمارتیں اور نادر چیزیں موجود ہیں ان میں سے ایک جامع مسجد سنبھل محلہ کوٹ میں ہے دوسری مساجد کی طرح اس میں بھی پنج وقتہ نماز ،نماز جمعہ وعیدین کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں اور باقاعدہ امام اور موذن مقرر رہتے ہیں اس کی عمارت مسجد ہی کے طرز پر ہے یعنی پچھم کی سمت کی تعمیر ہے، اسی طرز پر ابتدا ہی سے یہ مسجد قائم ہے اہل شہر سنبھل کے باشندوں میں ملکی سطح پر یہ بات مشہور ہے کہ جامع مسجد بابرظہیرالدین کی تعمیر کردہ ہے نیز فریقین اور ہر طبقہ کے لوگ اس کے قائل ہیں اور چند مورخین حضرات جیسےصاحب احسن التورایخ ،صاحب تاریخ امروہہ، صاحب علم وعمل صاحب کتاب سنبھل سروے ،مخلص وغیرہ نے بھی اس جامع مسجد کو بابر کی تعمیر لکھی ہےاس سلسلہ میں کتاب کے مصنف نے جو معلومات حاصل کی ہیں اور دلائل عقلیہ و نقلیہ جمع کیئے ہیں وہ آپ کے سامنےپیش خدمت ہیں اور اس میں چند بحثیں ہیں۔
(۱) ظہیر الدین بابر کے سنبھل آنے میں شک نہیں ان کا سنبھل آنا روز روشن کی طرح واضح ہے متعدد مورخین نے ان کے سنبھل آنے کو لکھا ہے۔
(۲) ظہیر الدین بابر کو ہندوستان فتح کرنے کے بعد ملک میں صرف ۴ سال حکومت کرنے کا موقع ملا جب کہ ان کی زندگی نے زیادہ ساتھ نہیں دیا۔ (۳) یہ بات سمجھ میں نہیں آتی اور عقل باور نہیں کراتی کہ بابر نے مختصر سی مدت میں ملک بھر میں تعمیرات کرادیں اور سنبھل کی جامع مسجد کی بھی تعمیر کروائی۔
(۴) ہاں بابر ظہیر الدین کا جامع مسجد کی مرمت کرانا قرین قیاس ہے اور عقل اس کو باور کراتی ہے لیکن اس مرمت کو مورخین نے تعمیر سے تعبیر کر دیا اور یہی بات عوام و خواص میں شہرت پاگئی۔
(۵) یہی قریب تر ہے کہ ظہیر الدین بابر نے جامع مسجد سنبھل کی مرمت کرائی مرمت کو تعمیر سے بیان کیا گیا ( مثال سے واضح ہوتا ہے ) جیسا کہ بیت المقدس کی تعمیر حضرت ابراہیم نے بیت اللہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد کی حالانکہ مشہور یہ ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر حضرت سلیمان نے کی بلکہ مرمت یعنی تعمیر ثانی کی جس کو تعمیر سے تعبیر کیا گیا اور جیسا کہ مشہور ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم و اسمعیل نے کی جب کہ ان دونوں حضرات نے تعمیر ثانی کی اور اول تعمیر حضرت آدم نے کی ہے۔
(۶) اسی طرح یہ تعمیر ظہیر الدین بابر کی نہیں بلکہ بابر نے مرمت کروائی لیکن اس مرمت کو تعمیر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(٧) یہ قدیم تعمیر ہے جو بابر کے عہد سے پہلے بھی موجود تھی کیوں کہ یہاں پہلے سے مسلمان آباد تھےبابر کے آنے سے قبل قاسم سنبھلی سنبھل کےحاکم تھےانھوں نے بابر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا سنبھل شروع سے ہی علم کا گہوارہ تھا سکندر لودھی نے چار سال تک سنبھل کو دارالسلطنت قرار دیا تھا، یہ فارسی، عربی کا مرکز تھا جامع مسجد سنبھل کی یہ تعمیر بابر کی آمد سے قبل کی ہے۔
(۸) اس شہر میں مسلمان سلاطین کی آمد سے اکثریت میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں یہاں کے مسلمانوں کے لئے ضروری تھا کہ کوئی مسجد ہو لہذایہ مسجد پہلے سے تھی اور بعد میں بابر نے ترقی دی مغلیہ دور حکومت میں سنبھل کو معراج ارتقاء حاصل ہوئی اور مغلیہ حکومت میں سنبھل کو مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔
(۹) نیز یہ تعمیر مغلیہ طرز کی نہیں ہے۔
(۱۰) البتہ بابرظہیر الدین نے اپنی آمد پر مزید کام کرواکے زنیت بخشی اور تکمیل کی جیسا کہ رستم خاں دکنی جو شاہ جہاں کے عہد سے سنبھل کے ۲۵ سال تک گورنر رہے انہوں نے بھی مسجد کی مرمت کرائی اور مشرقی بڑا دروازہ بھی انہی کی تعمیر کردہ یادگار ہے۔
(۱۱) یہ کہنا کہ بابر نے مندر توڑ کر مسجد تعمیر کرائی یہ بے بنیاد اور تاریخی حقیقت سے بعید ہے۔
رہی یہ بات کہ یہ مسجد کس مقام جگہ پر تعمیر ہے اور کس نے کرائی ۔
(١) پہلی بات کی وضاحت کہ مسجد کس جگہ پر تعمیر ہوئی، ہم صاف الفاظ میں اولاً یہ کہتے ہیں کہ اس جگہ مندر نہیں تھا اور اس جامع مسجد سنبھل کی تعمیر بابر نے نہیں بلکہ شاہ تغلق نے کروائی۔
(۲) دلیل اس جامع مسجدکی جگہ پرتھوی راج کا محل تھااب افتادہ زمین پڑی تھی جب سلاطین اسلام کی آمد ہوئی اور جب مسلمانوں کو تسلط حاصل ہوا تو یہ جگہ شہر میں بلند اور اونچی تھی اسی پر جامع مسجد کی تعمیر کی گئی۔
(۳) یہ بھی قرین قیاس ہے کہ اس جگہ کسی کونے یا قرب وجوار میں چھوٹا سا مندر ہو پر تھوی راج نے اپنے محل کیلئے اس جگہ کو منتخب کرکے اپنا محل تعمیر کروایا اور اس کےعوض میں رانی والا مندر بنوادیا جو آج بھی موجود ہے۔
(۴) اس جگہ مندر نہیں تھا کیوں کہ مندر کیلئے طواف( گھومنے کی جگہ )بھی ہوتی ہے اس میں کوئی جگہ گھومنے کی نہیں ہے۔
(۵) مندر کی عمارت اس انداز کی چوکور نہیں ہوتی۔
(٦) ہاں مسجد ہی کی عمارت چوکور ہوتی ہے اور مغرب کی سمت میں ہوتی ہے۔
(٧) موجودہ مسجد کی تعمیر زبان حال سے یہ کہہ رہی ہے کہ یہ مسجد ابتداء ہی سے اور اونچی جگہ پرتعمیر ہے جیسا کہ مساجد کی تعمیر میں لحاظ کیا جاتا ہے اور اس کا مغرب کی سمت میں تعمیر ہونا اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ یہاں کوئی کبھی مندر نہیں تھا۔
تاریخی دلائل سے یہ بات نکل کر سامنے آتی ہے کہ سنبھل کی جامع مسجد کی جگہ کوئی مندر نہیں تھا منتظمین اس بات کو بھی ملحوظ رکھیں کہ مسلمانوں کے نزدیک کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ پر جبراً اپنی عبادت گاہ کو تعمیر کروانا اسلامی تعلیمات کے خلاف مانتے ہیں اور یہ بھی خیال رکھیں کہ جس جگہ پر ایک بار مسجد بن جاۓ تو تاقیامت وہ اپنی اصلی حالت میں مسجد ہی رہے گی آج اس فسطائی دور میں مساجد پر منادر ہونے کا جو دعوی اور مہم چلائی جارہی ہے وہ ایک طرح کا مذہب بیزاری ظلم ہے سنبھل میں جو کچھ بھی ہنگامی سطح پر ہوا وہ کئی سوالات کھڑے کررہا ہے آپ دیکھئے ہندو فریق کی جانب سے19 نومبر کو دوپہر کے وقت سنبھل کی تاریخی شاہی جامع مسجد پر ہری ہر مندر ہونے کا دعوی پیش کیا جاتا ہے ضلعی کورٹ صرف ڈھائی گھنٹے کے اندر سروے کا حکم اور 26 نومبر کو مکمل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتی ہے اور اگلی سماعت 29 نومبر کو مقرر کردیتی ہے اسی روز شام کے وقت سروے بھی کردیا جاتا ہے۔
عدالت نہ مسلم فریق کو کچھ موقع دیتی ہے نہ اس کی راۓ سماعت کرتی ہے آخر عدالت نے اتنی جلد بازی سے کام کیوں لیا؟مان لیا جاۓ 19 نومبر کو سروے مکمل ہوگیا پھر کیوں سروے ٹیم 24 نومبر کو دوبارہ سروے کی غرض سے مسجد پہنچتی ہے جب کہ پہلی بار کا سروے پر امن طریقے سے انجام پایا قانونی نوعیت سے دیکھا جاۓ تو 1991 کے عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایکٹ موجود ہے جو 1947 کے بعد سے جو بھی مذہبی عبادت گاہ جہاں موجود ہے وہ اسی اصلی حالت میں رہے گی خواہ وہ کسی بھی مذہب کی ہو پھر عدالتیں اس پر عمل آواری کیوں نہیں کررہی ہے؟دو سال پہلے خود آر ایس ایس کے سرسنچالک موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ہر مسجد کے نیچے شیولنگ تلاش نہ کیا جاۓ اب آپ وہ منظر دیکھئے جو کسی فلمی شوٹنگ سے کم نہیں جب 24 نومبر کو سروے ٹیم ہندو فریق اور وکلاء کے ساتھ آتی ہے تو سرکاری ٹیم کے درمیان مذہبی نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے جبکہ معاملہ دو فریقین وہ بھی ہندو اور مسلم کے درمیان کا ہے تو سوال یہ ہے کہ اشتعال انگیزی پر کس نے اکسایا؟جب نوجوان مسجد کے اطراف جمع ہوۓ تو پولیس نے لاٹھی چارج آنسو شل برساۓ اور ہجوم کو منتشر کیا جواب میں پتھراؤ کیا گیا لیکن پولیس نے بھی جانبداری سے کام لیتے ہوۓ اندھا دھند فائرنگ کردی انتظامیہ کے مطابق چار مسلم نوجوان اور باوثوق زرائع سے معلوم ہورہا ہےکہ چھ مسلم نوجوان شہید ہوگئے۔
اترپردیش پولیس سے کیا یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ اگر فرض کرلیں ان مسلم ہجوم کی جگہ اگر ہندو ہجوم ہوتا تو تب بھی کیا پولیس فائرنگ کرتی؟سروے ٹیم مسجد کی جانب بڑھتے ہوۓ ان کے درمیان پولیس کی موجودگی میں جے سری رام کے نعرے لگاۓ جارہے ہیں اگر یہاں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا جاتا تو کیا پولیس ایسے ہی تماشائی بنی رہتی؟ہرگز نہیں تو کیا ہم اس کاروائی کو جانبدار کہیں گے یا غیر جانبدار؟پولیس نے تو صاف بغلیں جھاڑلیں کہ ہم نے پلاسٹک اور ربڑ کی گولیاں چلائی ہیں جب کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے حقائق کو پیش کردیا جن پر نظم و نسق کو چلانے کی زمہ داری ہے وہ خود نظم و نسق کو پامال کرتے ہوۓ دھجیاں اڑا رہے ہیں سیشن کورٹ بھی ایک لمحہ سوچے بغیر اس طرح کافیصلہ آخر کیسے دی سکتی ہے؟کون ہے ان نوجوانوں کی شہادتوں کا زمہ دار؟کون کھڑا کرے گا انھیں انصاف کے کٹھرے میں؟حالات کو اس قدر پوری منصوبہ بندی سے سنگین بنایا جاتا ہے نوجوانوں کو اشتعال انگیزی پر اکسایا جاتا ہے اور پھر مسلم نوجوانوں کی ہی گرفتاری کرتے ہوۓ ظلم پر ظلم کی دیوار کھڑی کی جاتی ہے۔
سنبھل میں اس زبردستی کے تشدد نے مسلمانوں کے جانوں اور اثاثوں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے جس کی تلافی ناممکن ہے سنبھل متوطن کے ہمارے ایک شفیق صحافی نے بتایا کہ مسلم علاقوں میں پولیس راتوں میں گشت کررہی ہے گھروں سے خواتین بچوں اور نوجوانوں کو گرفتار کررہی ہے جس وقت ہجوم جمع ہوا تھا ان کی رہ نمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا دلچسپ بات دیکھۓ جس تعلقہ کا رکن اسمبلی اور ضلع کا رکن پارلیمان مسلمان رہ کر بھی قوم کو یتیمی کے حال پر چھوڑ دیا گیا رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق جو شفیق الرحمن برق کے پوتے ہوتے ہیں جو مسلم پرسنل لابورڈ کے اجلاس میں بنگلور گئے ہوۓ تھے انھیں واپس سنبھل آنا چاہیئے تھا لیکن انھوں نے اپنی رعایاپر آنے والے ان تمام مصائب پر پارلیمنٹ سیشن کو فوقیت دی لیکن سنبھل واپس آنا گوارا نہیں سمجھا رکن اسمبلی نواب اقبال محمود جن کو مسلسل سات مرتبہ وہاں کے مسلمان جتاتے آرہے ہیں لیکن مجال ہے کہ وہ گھر کے باہر نکلیں اور اپنی قوم کی خبر گیری کریں مسلکی اختلافات کے چلتے علماء اکرام نے بھی اپنے آپ کو اس مسئلہ سے دور رکھا جب کہ وقت تھا قوم کے نوجوانوں کی بھر پور رہ نمائی کی جاتی ان کے اندر حوصلوں کا دم بھراجاتا کوئی تو ہوتا جو انھیں روشن میناروں کی طرح صحیح رہبری کرتا لیکن افسوس کے اس یتیم قوم نےسارے فیصلے خود کیئے اور جرات کے ساتھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔بقول راحت اندروی؎
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو