جنرل نیوز

قُمْ فَأَنذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ اصلاح خلق اور خدا کی بڑائی بیان کرنے کھڑے ہوجائیے

مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر صحافی و کالم نگار۔ حیدرآباد
فون نمبر: 9849099228
ہم اللہ کے آخری نبی و رسولؐ کے امتی ہیں اور ایک ایسی مشفق ہستی کے امتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ساری اولاد آدم کے لئے بشیر و نذیر بناکر مبعوث فرمایا۔ خوشخبری و بشارت ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی کبریائی کو تسلیم کرلیں اور اسی کو اپنا الٰہ و معبود بناتے ہوئے صرف اسی کی بندگی اختیار کرتے ہوں۔ اور نذیر ان لوگوں کے لئے ہیں جو اپنی من مانی کرتے ہوئے زندگی بسر کررہے ہوں اور خود ساختہ طریقہ ہائے زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے حقیقی مالک کو چھوڑ کر کسی اور کی غلامی کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال چکے ہوں۔ انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرائیں کہ تم نے جو روش اختیار کررکھی ہے یہ خدا کے غضب کو دعوت دے رہی ہے، لہٰذا تم اپنی من مانی چھوڑ کر رب چاہی طریقہ زندگی اپنا لو، اس میں تمہارا ہی بھلا ہے، تم دنیا کی ذلت سے بچ جائو گے، آخرت کی بھلائیاں تمہارے مقدر بن جائے گی۔ غرضیکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب اللہ کی طرف سے ڈرانے والا کوئی نبی و رسول آنے والا نہیں، کیونکہ قیامت تک کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بابرکت کی لائی ہوئی تعلیمات اور آپ پر نازل کردہ کتاب قرآن حکیم ساری نوع انسانی کے لئے حرف آخر ہے اور آگے جو کوئی بھی نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اپنی امت کو صراط مستقیم کی راہ بتلائی اور پورے ہمت و حوصلے کے ساتھ اللہ کی بندگی سے آزاد زندگی گزارنے والوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی ذات جو زمین و آسمان میں سب سے بڑی و ’’اکبر‘‘ ہے اسی کی کبریائی ان کے سامنے رکھی تاکہ غافل لوگ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے آگے سرنگوں ہوجائیں اور عذاب الیم سے بچ جائیں، اس طرح یہ کام آپ کے بعد خلفائے راشدین و صحابہ کرامؓ نے انجام دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج پر ساری دنیا میں اسے آگے بڑھایا اور بعد کے ادوار میں سلف صالحین و علماء امت نے اس کام کو اپنے اوپر لازم کرلیا اور ہر زمانے میں اللہ والے آتے رہے اور اپنے اپنے حصہ کا حق ادا کرتے رہے، غرضیکہ اللہ کی کبریائی کے نعرہ سے کوئی زمانہ خالی نہ رہا اور اللہ سے ڈرانے اور بشارت دینے والوں سے دنیا خالی نہ رہی۔
یہ اور بات ہے کہ اس نعرہ توحید اور نعرہ تکبیر کو دبانے دنیا کے مختلف گوشوں میں نادان و ناواقف یا خدا کے باغی و شریر انسانوں کی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا رہا ہے لیکن اسلام کا روشن چراغ ہمیشہ چمکتا رہا اور باطل پرست لوگوں کی پھونکوں سے بجھایا نہ جاسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اللہ ہی کی بڑائی قائم ہے اور قائم رہے گی۔ اگر انسان خود اپنی ساخت پر غور کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہ کتنا کمزور ہے، صحت کی تھوڑی سی خرابی اسے زمین پر لے آتی ہے، اور اسی طرح زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس پر غور و فکر کرے تو معلوم ہوجائے گا، یہ ایک عظیم ہستی ہی کی کاریگری ہے، لہٰذا وہ اس بات کو مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس ذات باری تعالیٰ ہی کو بڑا مانا جائے اور اسی کی بندگی کی جائے، اسی کے سامنے اپنا ماتھا ٹیکا جائے۔
غرضیکہ خدا سے غافل لوگوں کو جگانے کی ذمہ داری اب ہم پر عائد ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر امت بنایا ہے اور ہماری ڈیوٹی یہ بتلائی ہے کہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں، بری باتوں سے انہیں روکیں اور بحیثیت (نبی رحمتؐ کے) امتی ہم اپنا یہ مشن بنا لیں کہ غفلت میں پڑے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے آگاہ کردیں، تاکہ اولاد آدم کا یہ سیلاب عظیم جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بڑی برق رفتاری کے ساتھ جو آگے بڑھ رہا ہے، اسے روکنے کی مقدور بھر کوشش کی جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے ہم خود عذاب الٰہی سے بچنے، دنیا و آخرت کی بھلائیاں تلاش کریں اور اس کے عین مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں، کیونکہ سب سے پہلے اپنی فکر آپ کرنا عقلمندی و دانائی ہے۔ جسے انفرادی اصلاح کہا جاتا ہے، پھر بہ توفیق الٰہی اپنے اطراف کے معاشرے کی اصلاح و سدھار کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے۔
اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ ہماری تربیت یوں فرماتا ہے کہ ’’کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپا کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم (اللہ کی) کتاب (بھی) پڑھتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘۔
اس طرح کے عمل کو اللہ تعالیٰ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے خبردار کرتا ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو۔ اللہ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے‘‘۔ (سورہ البقرہ و سورہ الصف)
اللہ تعالیٰ کا ڈر (یعنی برے اعمال کے انجام بد سے ڈرنا) اور اس کی کبریائی و بڑائی کا احساس انسان کو راہ امن پر گامزن کرتا ہے، جس کی آخری منزل جنت ہے، اس طرح امت مسلمہ کو سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے جس کے بغیر دوسروں کی اصلاح کا کام برکت سے خالی رہ جاتا ہے یا قرون اولیٰ میں زبردست و پُراثر نتائج جو ہم کو نظر آیا کرتے ہیں موجودہ حال میں عنقا و نایاب ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ہم اولین طور پر فرد کی اصلاح یعنی مسلمانوں کی فکری و عملی ارتقاء کے لئے کوشاں رہیں اور دوسرے مرحلہ میں یا ساتھ ساتھ معاشرہ کی تعمیر کے لئے اخلاص کے ساتھ جدوجہد کریں، مختصر یہ کہ اللہ کا ڈر خوف اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے اس کی بڑائی و کبریائی کو دل و دماغ پر حاوی کرلیں تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی طاقت کا مالک بنا دیتا ہے کہ پھر اس کے بعد دنیا کی بڑی سے بڑی قوت اس سے ٹکرا کر رہ جاتی ہے۔ رہے وہ لوگ جو خدا کی عظمت و بڑائی سے ناآشنا ہیں، دنیا میں ان کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے، انہیں اللہ تعالیٰ کا ڈر بتاکر راہ حق پر لانے کی کوشش کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ یہ بات بھی ہمیں ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جو لوگ اللہ الٰہ واحد کی بندگی کی روحانی لذت سے ناواقف ہیں وہی لوگ دنیا میں اللہ کے حقیقی غلاموں سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں اور حد تو یہ ہوتی ہے کہ ان کی زندگی تنگ کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتے ہیں۔
آج ہم بھی اپنے اطراف میں یہی کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں اور روز کی اساس پر تجربات سے گزر بھی رہے ہیں، لیکن موجودہ جو صورتحال ہے اس کے ہم بھی ذمہ دار ہیں کہ ہم نے اپنے وطنی بھائیوں کو امن و سلامتی اور حق کا راستہ نہیں دکھایا، ان کے ساتھ سیاسی و گنگا جمنی دوستی رکھی، مگر ان اولاد آدم سے حقیقی محبت کا حق ادا نہیں کیا۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ کر اپنے برادران وطن کو اس کے ثمرات سے مالا مال کیا لیکن انہیں خدا تعالیٰ کا غلام بناکر اس کی بندگی کی لذت سے روشناس نہیں کروایا، نہ دوزخ سے ڈرایا نہ جنت کی بشارت سنائی۔
خیر اب ہم اللہ کا نام لے کر اللہ ہی کے لئے کھڑے ہوں گے تو یقینا اللہ کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی۔ ضرورت اس وقت اس بات کی ہے کہ اپنے اندر سے مرعوبیت یا ظاہری طاقتوں کے آگے جھک جانے کے مرض سے نکلنا ہوگا۔ غیر الٰہی قوتیں بظاہر خوشنما نظر آرہا ہیں، ان کی تہذیب کو عروج حاصل ہوتے دیکھ رہا ہے، اقتدار کی کنجیاں ان ہی کے ہاتھ میں نظر آرہی ہیں، ہر طرف ان کا ڈنکا بجتے دیکھا جاسکتا ہے، ان ساری چیزوں کو خاطر میں لائے بغیر اللہ کی مرضی کا کام کرنے کھڑے ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر بن جائے گا۔
جماعت اسلامی ہند تلنگانہ نے ملت کو بیدار کرنے اور موجودہ ڈر و خوف کے ماحول سے باہر نکالنے کے لئے ایک دس روزہ مہم بعنوان ’’قُمْ فَأَنذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ‘‘ اٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو‘‘۔ ۵تا۱۵؍ اگست ۲۰۲۲ء چلائے گی جس میں لوگوں کو ان کی ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ملک میں امن و امان کی فضاء قائم کرنے اور نفرتوں اور کدورتوں کو الفتوں میں تبدیل کرنے رائے عامہ ہموار کرے گی اور ملت اسلامیہ کو ان کی کوتاہیوں کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے شیطانی رسم و رواج سے بچنے اسراف سے اجتناب کرنے کی ترغیب دلائے گی، ایسے نازک حالات میں تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اعمال کی اصطلاح کی طرف توجہ دے تاکہ خدا تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے اور ہم پر رحم و کرم کا معاملہ فرماتے ہوئے موافقت اور امن میں بدل دے۔ اس سلسلہ میں علمائے کرام کا بھی بہت اہم کردار ہونا چاہیے کیونکہ آج بھی وارث انبیاء کی بہت قدر کی جاتی ہے، وہ بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، انفرادی و اجتماعی ہر طور پر اپنا تعاون پیش فرمائیں۔ دوسری طرف تمام ائمہ کرام و متولیان مساجد بھی اپنے اپنے طور پر خطبات جمعہ و دیگر مواعظ کے موقع پر ملت کے اندر سے ڈر خوف کے ماحول کو دور کرنے کی صالح کوشش کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ اور آپ کی سنت ہمیشہ ہمارے سامنے رہے کہ جس وقت سورہ مدثر نازل ہوئی جس کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرما دیا کہ قُمْ فَأَنذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ تو آپؐ نے اس دنیا سے رخصت ہونے تک اس پر عامل رہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اللہ کی بڑائی بیان کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں۔
٭٭٭

متعلقہ خبریں

Back to top button