مضامین

جامعہ گلشن خیر النساء ظہیرآباد ایک منظم دینی انقلابی تحریک

رشحات قلم وتاثرات

عبدالقیوم شاکر القاسمی

جنرل سکریٹری جمعیت علماء

ضلع نظام آباد. . تلنگانہ

9505057866

بتاریخ 22/نومبر 2022 شہر ظہیر آباد ضلع سنگاریڈی کی مشہور ومعروف علمی وتربیتی درسگاہ جامعہ گلشن خیرالنساء کے بانی وناظم ریاست تلنگانہ وکرناٹک کے انتہای مقبول عالم دین مولاناعتیق احمد قاسمی صاحب کی پراصراردعوت پر مدرسہ کی شعبہ عالمیت کی طالبات کا ششماہی امتحان لینے کی غرض سے اپنے دوست احباب کی معیت میں حاضری ہوی اسی کامیاب سفر کے حوالہ سے راقم چند سطور اپنے تاثرات مشاہدات کوتحریر کرنا ضروری سمجھا تاکہ ذمہ داران مدارس کو راہ نمای ملے اور عوام الناس کو علمی ذوق وشوق نصیب ہوپاک پروردگار کام کرنے والوں کی محنتوں کو قبول فرماے آمین

اولااس بات کا ذکر کرتا چلوں کہ گذشتہ 7/8سال قبل ہی سے جامعہ گلشن خیر النساء اورمولاناعتیق احمد صاحب کانام بارہا سننے اورمختلف جلسوں کے اشتہارات میں دیکھنے کو ملا اورکئ ایک لوگوں کی زبان سے مدرسہ کی نیک نامی اورعمدہ ومعیاری تعلیم وتربیت کا شہرہ سنا تو اسی وقت سے خیال تھا کہ کسی وقت اس مدرسہ اور اس کے بانی وناظم سے ملاقات ہوکوی راہ بنے کہ ہماری رسای بھی اس خیر کے گلشن تک ہوجاے اوربچشم خود اس ادارہ کو دیکھیں

بہر کیف بات آئ اورگئ ہوگئ

گذشتہ ماہ نومبر کی 13 تاریخ کو مولانامذکور سے نارائن کھیڑ کے ایک جلسہ سیرت طیبہ میں ملاقات کا شرف حاصل ہوابڑی بے تکلفی سے بات چیت فرمای گرچہ یہ عاجز عمر علم وعمل اور قدوقامت ہر اعتبار سے چھوٹا ہی ہے مگر مولانامحترم نے بڑی ہی بے تکلفی سے گفتگو فرمای اور مدرسہ آنے کی دعوت بھی دے دی راقم نے اپنی دیگر ذمہ داریوں کی بابت گرچہ اس وقت اس دعوت کو قبول نہیں کیا اورمناسب موقع پر حاضر ہوکر استفادہ کرنے کی بات کہی مگر دوچاردن بعد ہی مولانانے بذریعہ فون رابطہ کیا اوروقت دینے کی گذارش بلکہ حکم دیا کہ آپ پنے احباب کے ساتھ تشریف لائیں اور طالبات کا امتحان لیں قابل اصلاح باتوں کی جانب توجہ مبذول کرائیں راقم نے 22/ نومبر بروزمنگل کو حاضری کی حامی بھری اوراسی دن رات 4/بجے مولاناارشدعلی قاسمی ومفتی عبدالمبین قاسمی کی رفاقت کرکے نکل پڑا اور انتہای پر لطف وکامیاب سفر شروع ہوا ظہیر آباد کی مسافت نظام آباد سے گرچہ کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن راستوں کی خرابی کے باعث کافی طویل اورتھکادینے والا یہ سفر محسوس ہوا

لیکن مولاناکا غیر معمولی استقبال اوربے پناہ محبت اورخوشی ضیافت ومہمان نوازی نے اس کسل و تعب کو پوری بشاشت اور ہمت میں تبدیل کردیا

بہرکیف

جامعہ گلشن خیر النساء اس علاقہ کاایک کامیاب منظم ومرتب ادارہ ہے جو گذشتہ کئ برسوں سے ایک پسماندہ اور دورافتاد علاقہ بے دینی کے سیلاب جیسے ماحول میں باالکل غریب آبادی میں علمی تربیتی خدمات ہوری امانت ودیانت داری اورانتہای حسن ترتیب کے ساتھ انجام دیتا آرہاہے بڑی قربانیوں اورجانفشانیوں سے اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا اور آج تک بھی اس ادارہ کا کوی قابل ذکر معاون نہیں بس توکلا علی اللہ اورکام کرنے والوں کے اخلاص کی برکت سے ہی اللہ پاک اس ادارہ کی ضروریات کا تکفل فرمارہے ہیں اور فرماتے رہیں گے

میں اگر یہ کہوں تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ یہ جامعہ محض چہاردیواریوں اورچند تعمیرات نہیں بلکہ دینی انقلاب کی ایک عظیم تحریک ہے جہاں سے انتہای منظم ومرتب باصلاحیت وصالحیت طالبات فارغ ہوکر پورے علاقہ میں دینی خدمات انتہای سلیقہ مندی کے ساتھ انجام دے رہی ہیں

راقم کاخیال تھا کہ کوی بڑی اورشاندار دیدہ زیب عمارت اور مالی فراوانی سے بھرہور یہ ادارہ ہوگا تمام تر سہولیات وآرائشی اسباب مہیا ہوں گے لیکن میں اپنے خیال میں غلط ثابت ہوا اس ادارہ میں ایک قسم کی روحانیت وراحت محسوس ہوی اساتذہ ومعلمات کی قربانیوں کی مہک محسوس ہوی ناظم وبانی ادارہ کا توکل علی اللہ اورجذبہ دینی کی خوشبوئیں محسوس ہوئیں دومنزلہ یہ عمارت اپنے انداز تعمیر وطریقہ رہن سہن سے ایک منظم دنیا محسوس وہی جہاں ہر کام اپنے وقت پر اپنی ذمہ داری سمجھ کر پوری شفافیت وکے ساتھ انجام دیا جارہا ہے ماشاء اللہ اس علاقہ کا انتخاب بھی مولانامحترم کی فکر دینی وجذبہ خدمت کا پرتو نظرآیا اسباب وضروریات کے حوالہ سے بقدر ضرورت تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ ہر رکھی ہوی مختصر مگر انتہای صاف ستھرا مہمان خانہ طہارت خانہ وبیت الخلاء برآمدہ اوردرسگاہیں امتحان ہال ودفتر طالبات کا طعام ہال اورباورچی خانہ وضوخانہ اور اسٹاف روم ہر جگہ صفای ستھرای کا اچھا اورعمدہ انتظام نظر سے گذرا دیکھ کر دل میں خواہش ہوی کہ ہر دینی ادارہ کو خواہ خواہ بنات کے ہوں یا بنین کے اس قسم کی صفای کا خاص التزام واہتمام کرنا چاہیے وقت کی حفاظت اور قدردانی بھی یہاں دیکھنے کو ملی

طالبات کا تعلیمی مظاہرہ تو بہت خوب رہا جس سے معلمات وانتظامیہ کی سچی لگن اورمحنت کا پتہ چلا اللہ پاک ترقیات سے نوازے

خاص بات جو اس طالبات والے جامعہ کی دل کو چھو گئ وہ اینکہ یہاں دینی تعلیم وتربیت کا انتظام تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ ان طالبات کو نورانی قاعدہ باتجوید اورابتداء ہی سے دنیاوی تعلیم انگریزی تیلگو اور سائنس وحساب بھی پڑھایا جارہاہے یہ طالبات ناظرہ قرآن مکمل کرنے تک ساتویں جماعت پاس ہوجائیں گی پھر عالمیت کے پانچ سال کی تکمیل ہوتے ہوتے انٹر کے دوسال بھی مکمل ہوجائیں گے اس اعتبار سے دین ودنیا کا یہ حسین سنگم اوربہترین امتزاج دلوں کو حیرت میں ڈال دیا نیز ان طالبات کی تعلیم وتدریس کے لےء ماہر معلمات بھی انتہای قلیل وکم تنخواہوں پر اپنی مثالی وہمہ جہات خدمات ا نجام دے رہی ہیں

علاوہ ازیں محلہ کی بڑی خواتین اورمصروف عورتوں کے لےء بھی یومیہ صبح اورشام آن لائن کلاسیس جاری رہتی ہیں جس میں صرف عائلی ومعاشرتی مسائل کے حل اوراصلاح معاشرہ اورخاندانی حقوق پر وعظ نصیحت ہوتی ہیں جس سے استفادہ کرنے والی خواتین بھی ایک بڑی مقدار میں ہیں نیزاس ادارہ سے تخصص فی التفسیر اورتخصص فی الفقہ کی طالبات بھی استفادہ کرتی ہیں بڑی خوشی تو اس وقت ہوی جب مولانا نے بتایا کہ آخری سال طالبات کو فراغت سے قبل خیاطی اورطباخی کے شعبہ سے بھی استفادہ کرایا جاتا ہے باضابطہ ماہر درزیوں اور طباخوں سے اس پکوان اورسلوای کے ہنر سے بھی آراستہ کرکے ان کو سند دی جاتی ہے جو ایک قابل ذکر کام ہے چونکہ عموما بلکہ موجودہ ماحول میں لڑکیاں پڑھ لکھ کر سب کچھ تعلیم تو حاصل کرلیتی ہیں لیکن شادی کے بعد جس گھر میں بیاہ کر جاتی ہیں وہاں سے کھانے پکانے کے حوالہ سے ناکام ثابت ہورہی ہیں

ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی ذکر کرتا چلوں کہ مولانامحترم اپنے محلہ اوراطراف واکناف کے چند ایک محلہ جات کو نشانہ بناکر انتہای پسماندہ اورسطح غربت سے بھی نیچے گرے ہوے مزدوروں سنگ تراشوں اوریومیہ معمولی مزدوری پر کام کرنے والوں کے بچوں کی فکرکرتے ہوے ایک مدرسہ خیر الرجال کے نام سے بھی قائم کےء ہیں جوواقعة فکر امت کا غماز ادارہ ہے جہاں ہم لوگوں نے جائزہ کے طور پر تین مختلف بلاتعیین بچوں کا قرآن سنا تو ایسا لگا کہ کسی ہمہ وقتی مدرسہ مدرسہ میں سالہاسال کی محنت کرنے والے بچے تلاوت کررہے ہیں بہت ہی خوش الحانی اورتجوید کی رعایت کرتے ہوے قریب اللحن وحسن صوت کے ساتھ بچوں نے قرآن سنایا جی چاہ رہا تھا کہ بیٹھ کر بس قرآن مجید کی تلاوت کو ان معصوم بچوں سے سنتے جائیں

مالیات کا شعبہ بھی مولانانے دکھلایا گرچیکہ نہ ہم اس کے طالب تھے نہ ہی وہ شعبہ ہمارا مطلوب تھا

مگر چونکہ انسان کے معاملات جب صاف وشفاف ہوتے ہیں تو وہ کسی بھی چیز کا مشاہدہ کرانے سے گریز نہیں کرتا ہے اسی لےء شاید مولانانے یہ حیرت انگیز سسٹم بھی بتلادیا کہ ہمارے پاس ہر سال 25 داخلے مستحقین زکوة کے لےء جاتے ہیں اس محدود ومتعین تعداد کے پر ہوجانے پر کوی اور داخلہ نہیں لیا جاتا ہے اور باضابطہ مسحتق طالبات کے نام ان کی تفصیلات مکمل پتہ کفالت کرنے والوں کی تفصیلات کے سقتھ رجسٹر میں درج رہتا ہے جو کسی بھی آنے والے کے سامنے بے خوف وخطر پیش کیا جاسکتا ہے یقینا دینی مدارس کے مالی نظام کو اسی طرح شفافیت کے ساتھ رکھنا چاہیے اور بطور خاص اس جانب ہمارے اکابرین وذمہ داران مدارس باربار توجہ بھی دلارہے ہیں اس ادارہ کا یہ ایک ہی نہیں بلکہ ہر نظام قابل دید ولائق تحسین ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر مدارس والوں کے لےء ایک بہترین اسوہ اورنمونہ ہے جس کو اختیار کرنا چاہیے

آخری بات یہ بھی بڑی اچھی لگی کہ عموما مدارس سے پڑھ کر فارغ ہوجانے والے طلباء وطالبات کا اپنے ادارہ اوراساتذہ سے تعلق باقی نہیں رہتا ہے جو آگے چل کر کسی بھی بے راہ روی یا خط اعتدال سے ہٹ جانے کا سبب بن جاتا ہے بلکہ یہ ہماراروز مرہ کا مشاہدہ بھی ہے آے دن اس قسم کی بے راہ روی کے واقعات طلباء وطالبات کے ہمارے سامنے آتے ہیں لیکن مولانامحترم نے ایسانظام بنایا کہ طالبات فارغ ہوکر مدرسہ سے جانے کے باوجود بھی وہ اپنے ادارہ اور معلمین ومعلمات سے تعلق خاطر رکھتی اور ادارہ سے وابستگی پر جمی رہتی ہیں سال میں ایک مرتبہ ان فارغ طالبات کو جوڑکر دینی خدمات سے وابستگی اورحقوق اقرباء کے حوالہ سے مہمیز کیا جاتا ہے جو انتہای خوش آئند بات ہے

قصہ مختصر یہ ہیکہ اس کامیاب ترین سفر سے بہت ساری چیزیں سیکھنے کو ملی اور کام کرنے کا حوصلہ ملا اوربطور خاص مولاناعتیق احمد صاحب کی قربانیوں اوردینی کاوشوں اورامت مسلمہ کے بچوں اوعبچیوں کی دینی فکر کا پتہ بھی چلا

اللہ تعالی اپنے کرم سے ان محنتوں کو شرف قبولیت سے نوازے اورپوری ملت اسلامیہ کی جانب سے خوب خوب جزاے خیر دے ۔۔۔آمین بجاہ سید المرسلین ۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button