مضامین

اسرائیلی زیادتیاں اور مسجد اقصیٰ کی فریاد !

ذکی نور عظیم ندوی – لکھنؤ

مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ، یہ اسلام کی تاریخ میں دوسری تعمیر کردہ ایسی مسجد ہے جس کی تعمیر مسجد حرام کی تعمیر کے چالیس سال بعد ہوئی ، اس کو خانہ کعبہ کی طرح حضرت آدمؑ کے زمانہ میں ہی تعمیر کیا گیا ۔ اس کو حضرت ابرہیم ؑ نےاپنے دوسرے صاحبزادہ حضرت اسحق ؑکا مرکز بنایا اور خود بھی پوری زندگی مسجد حرام اور یہاں آتے جاتے رہے، نبی اکرمﷺ معراج کے موقع پر مکہ سے براہ راست لے جانے کے بجائے پہلے مسجد اقصی لے جائے گئے ،وہاں تمام انبیاء کی امامت اور ایک طرح سے اس اعلان کے بعد سفر معراج پر روانہ ہوئےکہ اب آخری نبی اور آخری امت کواس کی تولیت عطا کردی گئی ہے۔

 

مسجد اقصی کی تعمیر نو کا کام حضرت داؤد و حضرت سلیمانؑ نے کیا، تعمیر کے بعد حضرت سلیمان ؑ نے تین دعائیں، اللہ کے حکم کے مطابق حکمرانی، اپنے لئے سب سے بڑی سلطنت اور مسجد اقصی میں نماز پڑھنے والوں کی مغفرت کی دعا کی ۔

یہ سرزمین مختلف انبیا ء کی جائے پیدائش اور مسکن ہے لہذا حضرت اسحقؑ سے حضرت عیسیؑ تک تمام انبیا ء کا مرکز یہی رہا ، حضرت موسی ؑ نے اس سے قریب موت کے لئے دعا کی، یہ ان تین اہم مسجدوں، مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی میں وہ تیسری مسجد ہے جہاں نماز میں اضافی ثواب ملتا ہے ، جہاں ثواب کی نیت سے جانا مشروع بھی ہے ، یہاں نماز پڑھنے والے کے لئے حضرت سلیمان ؑ نے ایسی مغفرت کی دعا کی جیسےاس کی ابھی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدائش ہوئی ہو، یہ مسجد حرام کے ساتھ دوسرا وہ اہم مقام ہے جو دجال اور اس کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، اس کو اور اس کے ارد گرد علاقوں کو قرآن میں مبارک اور مقدس قرار دیا گیا ہے۔

ان بے شمار فضیلتوں اور عظمتوں کے پیش نظر مسلمانوں کو خاص طور پر مسجد اقصی کی عظمت و تقدس اور اس کے تحفظ کے لئے تمام ممکنہ وسائل و ذرائع انفرادی و اجتماعی طور پر اختیار کرنا چاہئے اور بنی اکرمؑ کی اس پیشن گوئی کا مستحق بننے کی کوشش کرنی چاہئےکہ اس کے آس پاس میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ دین پر ثابت قدم اور دشمنوں پر غالب رہے گی اور اسےکوئی کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

لیکن افسوس کہ روزانہ ہی بیت المقدس کی مظلومیت، مسجد اقصی کی بے حرمتی، وہاں ہونے والے ظلم و تشدد، فوجیوں کی زیادتیوں، معصوموں کے قتل عام، بے بنیاد گرفتاری، یک طرفہ اسرائیلی توسیعی منصوبے، ناجائز تعمیرات اور قبضہ کو مستقل شکل دینے کی مذموم حرکتیں، اقوام متحدہ، حقوق انسانی تنظیموں اور با اثر ممالک کی مجرمانہ بے غیرتی اور منافقانہ خاموشی، اسرائیل کی ظالمانہ و جارحانہ کاروائیوں میں ہوتے اضافہ، عام بستیوں پر بمباری اور دیگر تمام اسرائیلی جرائم کی خبریں تو آتی ہی رہتی تھیں لیکن ۳جنوری ۲۰۲۳ء کو اسرائیلی وزیر سلامتی اتمار بن گویر کا مسجد اقصیٰ کے احاطہ میں جوتاپہن کر داخل ہونا اور یہ اعلان کہ مسجد اقصیٰ کو جلد ہی توڑ کر کنیسا میں تبدیل کردیا جائے گا، ہیکل سلیمانی کی تعمیر مکمل ہوگی اور تابوت سکینہ کو یہاں لاکر رکھ دیاجائے گا کسی طرح نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔ یاد رہے کہ انھوں نے ہی سالِ گزشتہ دسمبر میں کولمبیا یونیورسٹی کے دورہ کے موقع پر اعلان کہا تھا کہ ان کے پاس فلسطین کا ایک ہی حل ہے کہ تمام فلسطینیوں کو قبر میں پہنچا دیا جائے جہاں وہ بھی آرام کی نیند سو سکیں اور یہودی سکون سے اسرائیل میں زندگی گزار سکیں۔

 

اگرہم اس پر بھی اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں لاتے اور ہمیں فلسطین میں شہیدوں کی لاشیں۔ زخمیوں کی سسکیاں، بلکتی ماؤں کی آہیں، بہنوں کی درد بھری صدائیں، یتیموں اور بیواؤں کی چیخیں، مسجد اقصی اور فلسطین میں بہتے خون کی دھاریں۔ ہزاروں بےگھر وں کی تکلیفیں، معذوروں کی آرزوئیں اور امنگیں۔ مظلوموں کی دعائیں، نہتے مجاہدین کی محدود کوششیں، یہاں تک کہ حقوق انسانی کی پامالی کی داستانیں، صحافیوں اورمیڈیا کی دبائی گئی آوازیں، مٹائی گئی تصویریں اور تحریریں، اغوا کی وارداتیں اور معمولات زندگی ٹھپ ہوجانے کی حقیقتیں اب بھی بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں حتی کہ اب ایک وزیر کی یہ گستاخی، اشتعال انگیزی اور بے ہودگی بھی سنجیدگی سے کچھ سوچنے اور کرنے پر آمادہ نہ کرسکی تو یہ ہمارے احساس و شعور، امیدوں اور توقعات ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر اجتماعی موت یا خودکشی کا اعلان ہوگا جس کے بعد ہمیں کسی سے شکوہ کا کوئی حق نہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967ءکی جنگ میں مشرقی یروشلم پرقبضہ کیاتھا۔اس کے بعداسے اسرائیل میں ضم کردیاگیااور وہاں یہودی نوآبادیات کا غیر انسانی اور غیر قانونی سلسلہ شروع ہوگیا۔آج وہاں 20لاکھ یہودی مکانات ہیں۔اس شہر پر کنٹرول اسرائیلی فلسطینی تنازعہ کاانتہائی حساس اورمخدوش پہلو ہے۔فلسطینی مشرقی یروشلم کو مستقبل کے آزاد فلسطین کی راجدھانی بنانا چاہتے ہیں جب کہ اسرائیل اس شہر کو اپنی دارالحکومت کے طور پردیکھتاہے۔ یروشلم سنٹرفارسوشل اکنامکس رائٹس کے ڈائریکٹرزیادحموری کاکہنا ہے کہ اسرائیل 20ہزار فلسطینیوں کو یروشلم بدرکرنا چاہتاہے اور دعوی کرتا ہے کہ یہ فلسطینی شہر میں رہنے کا قانونی جواز نہیں رکھتے۔

ایک غاصب اسرائیل کایہ دعویٰ اور دبدبہ اگر ایک طرف عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی کا نتیجہ ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی نا اتفاقی ،کمزوری اور’’ایک امت کے آفاقی تصور‘‘ کو فراموش کردینا بھی اس کا ایک اہم سبب ہے۔

 

بیت المقدس کمیٹی کے عہدہ دار عبداللہ ابوجرنوع نے بہت پہلے خبردارکیا تھا کہ بیت المقدس کویہودیانے اورمسجد اقصیٰ پرمکمل کنٹرول کی اسرائیلی مہم عروج پرپہنچ چکی ہے۔انہوں نے کہاتھا کہ مسلمانوں کی خاموشی کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کے خلاف اسرائیلی جارحیت بڑھ رہی ہے اور یہودی اس خاموشی کافائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد اقصیٰ اور اسلامی مقدس مقامات پراپناپنجہ گاڑتے چلے جارہے ہیں۔

آخر کیا ہوگیا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے اب مسلمان مضطرب بھی نہیں ہوتے۔کیا ہم وہ مسلمان ہیں جن کو اسلام اوراسلامی معاشرہ سے قلبی لگاؤ کا دعوی تو ہے لیکن اس کے تحفظ اور دفاع کے لئے کچھ کرنے کا دم نہیں۔اسی وجہ سے ہر جگہ اسلام اور مسلمانوں پر منصوبہ بند حملے ہو رہے ہیں، قرآن کی بے حرمتی کی جارہی ہے، اسلام کا مذاق اڑایاجارہا ہے، اس کو دہشت گردی کا مذہب قرار دیا جارہا ہے، پیغمبر اسلام کی توہین کی جارہی ہے، ہر طرف سےتیر برسائے جارہے ہیں، حجاب، داڑھی، اورمسجدوں کے خلاف شرمناک مہم چلائی جارہی ہے۔ لیکن مسلمان تھوڑی دیر آہ بھر کر پھر خاموش ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ کچھ کرتے ہیں تو کبھی مسلم حکمرانوں کو برابھلا کہتے ہیں، پھر مسلم لیڈروں کو کوسنے لگتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ د اری ختم ہو گئی۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ کس قسم کا صورپھونکا جائے کہ امت مسلمہ جاگ جائے، وہ حرکت میں آئے اور مسجد اقصیٰ، بیت المقدس اور اسلامی شعائرکے تحفظ کے لئے منظم انداز میں کچھ کرنے کی سنجیدہ کوشش کرے۔جب کہ مسجد اقصی پوری امت سے فریاد کرتے ہوئے ان کو آواز دے رہی ہے کہ مسلمانو اٹھو ! اپنے قبلہ اول اور انبیاء کے اس عظیم مرکز کی حفاظت کے لئے کمر کس لو۔القدس کے فلسطینی شہریوں کو ان کا حق دلاؤ ۔ان کی املاک غصب کرکے انہیں شہر بدرکرنے کے منصوبوں کو خاک میں ملا دو اور ان کے گھروں کو مسمار کرکے تاریخ اسلامی کے مقدس مقامات کو یہودیت میں تبدیل کرنے کی کوششوں کو پوری طرح ناکام کردو۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button