جنرل نیوز

عدالتی احکام کی بنیاد پر نکاح ناموں اور میاریج سرٹفکیٹ کے نظام کو تباہ کرنے کی سازش 

مولانا ابوالفتح سید بندگی بادشاہ قادری ریاض پاشاه سجادہ نشین و رکن ریاستی وقف بورڈ کا بیان

عدالتی احکام کی بنیاد پر نکاح ناموں اور میاریج سرٹفکیٹ کے نظام کو تباہ کرنے کی سازش 

محکمہ اقلیتی بہبود اپنی ذمہ داری پر آوٹ سورسنگ کے تحت وقف بورڈ کو حوالے کرے۔ نظام قضات کو مستحکم کیا جائے 

مولانا ابوالفتح سید بندگی بادشاہ قادری ریاض پاشاه سجادہ نشین و رکن ریاستی وقف بورڈ کا بیان

 

حیدر آباد 25 ۔ مارچ (پریس نوٹ ) مولانا ابوالفتح سید بندگی بادشاہ قادری ریاض پاشاہ سجاده نشین درگاہ شریف بالکنڈه نظام آباد و رکن تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ نے کہا کہ دکن میں مسلم شادیوں کے رجسٹریشن کا نظام بانی جامعہ نظامیہ استاذ سلاطین آصفیہ، فضیلت جنگ حضرت انوار اللہ فاروقی چشتیؒ کا قائم کردہ ہے جو انتہائی شفاف اور بہترین انداز میں گذشتہ دیڑھ صدی سے زائد عرصہ سے جاری ہے۔ اس نظام کے تحت گذشتہ دیڑھ صدی کے مسلم شادیوں کے ریکارڈس نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ اس نظام کو ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ تحسین کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

 

نکاح کے دستاویز نہ صرف متعلقہ قاضی بلکہ وقف بورڈ اور اسٹیٹ آرکائیوز میں تینوں جگہ محفوظ رہتے ہیں۔ اس نظام کو ریاستی و مرکزی سرکاری محکمہ جات عدالتیں اور تمام بیرونی ممالک کے سفارت خانے تسلیم کرتے ہیں۔ وقف بورڈ سے مربوط اس نظام کو عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر اگر کمزور کیا جائے اور اس کی ہیئت تبدیل کر کے سرکاری سطح پر میاریج سرٹفکیٹ کی اجرائی کے بجائے اگر خانگی طور پر قاضی حضرات عدالتی فیصلوں کو استعمال کر کے اپنے طور پر جاری کرنے کی کوشش کریں گے تو اس قوم ملت کو اجتماعی نقصان ہو گا۔ سرکاری طور پر وقف بورڈ کے ذریعہ سیاہ ناموں کی اور میاریج سرٹفکیٹ کی اجرائی ایک امتیاز اور مسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔ موجودہ پر آشوب دور میں نئے قوانین کے تحت جہاں شہریوں کو پریشان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے میں آدھار کارڈ پاسپورٹس، فوٹو شناختی کارڈس فیملی ویزا اور ایمگریشن کے امور سبھی چیزیں نکاح ناموں اور میارج سرٹفکیٹ سے مربوط ہیں

 

۔ایسے میں اگر اس نظام کو متاثر کیا جائے اور عدالت کے فیصلہ کی بنیاد پر اسے سرکاری طور پر وقف بورڈ کے بجائے خانگی طور پر جاری ہونے لگے تو کوئی اسے تسلیم نہیں کرے گا۔ اس سے قوم کے ساتھ بددیانتی ہوگی اور یہ باتیں اجتماعی نقصان کا باعث ہوں گی۔ اس کے بعد مسلم شادیوں پر بھی دیگر ریاستوں کی طرح مسلمانوں کو سب رجسٹرار کے دفاتر کے چکر لگا کر میاریج کی رجسٹری کروانی پڑ گی۔ چونکہ حکومت کے محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے قاضی حضرات کا تقرر کیا جاتا ہے۔ پرنسپال سکریٹری اقلیتی بہبود تلنگانہ کی جانب سے متعلقہ ضلع کلکٹر اور پولیس سے تحقیقات کے بعد کسی قاضی کا تقرر ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں عدالتی احکام کو پیش نظر رکھتے ہوئے تقر ر کرنے والے مجاز عہدیدار کو ہی محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے نکاح ناموں کی اجرائی اور میاریج سرٹفکیٹ کی اجرائی کی ذمہ داری حاصل کرنی چاہیے۔ کمشنریٹ و ڈائرکٹریٹ اقلیتی بہبود کے پاس عملہ نہیں ہے۔

 

ریاستی وقف بورڈ کا عملہ چونکہ اس کام میں مہارت اور تجربہ رکھتا ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود اس کام کو آوٹ سورسنگ کے تحت وقف بورڈ کو دے کر کام لے سکتا ہے وقف بورڈ کو اس کام کے سرویس چار جس دیئے جاسکتے ہیں۔ یہی اس مسئلہ کا آسان حل ہوسکتا ہے۔ مسلم قیادت اور ریاستی حکومت نظام قضاءت کے ضمن میں قانون سازی کرے تبھی اس مسئلہ کا حل ہو گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button