انسان کے روپ میں ہیں کچھ حیوان یہاں پر مسلمانوں سے نفرت اور سماج کو منقسم کرنے کی سیاست کب تک؟
تحریر:سید سرفراز احمد،بھینسہ تلنگانہ
جب انسانوں کی نگری سے انسانیت دم توڑ کر حیوانیت غالب آجاتی ہے تو ایسے سماج سے نیک نامی کی امید کرنا بیوقوفی کی علامت ہے کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک کا ہر مذہب امن بھائی چارہ انسانی خدمت کا درس دیتا ہے لیکن یہ درس ایک عرصہ سے کبھی عملی طور پر دیکھا نہیں گیا خواہ ایک انسان کتنا ہی ظالم ہو کتنا ہی مذہب پسند ہو لیکن کم از کم اس کی روح میں آخری درجہ کی انسانیت تو باقی ہوتی ہے یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ آج ہم جس سماج میں زندگی گذار رہے ہیں یہاں ایک انسان سے ذیادہ ایک آوارہ کتے کی خدمت کی جاتی ہے جانوروں سے حسن سلوک کیا جاتا ہے پالتو کتے کا تذکرہ کریں گے تو شائد کہ ایک بڑا جرم بن جاۓ کیونکہ لوگ پالتو کتے کو اپنے خون جگر کی طرح اس کی پرورش اور اس کی غذا کا خیال جو رکھتے ہیں لیکن آج بھارت کا یہ سماج انسانی خدمت کے معاملہ میں بہت اپاہیج ہوچکا ہے انسانی خدمت کے درمیان مذہب کی دیوار کو کھڑا کردیا گیا ممکن ہے کہ ایسا پورا سماج نہیں ہوگا لیکن ایسا ایک بھی معاملہ پورے سماج کے اعصاب پر سوار ہوسکتا ہے چونکہ اس نفرت کی چادر کو ہوا دینے کے لیئے ملک کے کثیر المذاہب کو آپس میں منقسم کرنے کی سازشیں ایک عرصہ دراز قبل کی گئی جس کے مناظر آج وقفہ وقفہ سے سامنے آرہے ہیں آج سماج میں نفرت کا جو وسیع دائرے کار نظر آرہا ہے یہ دراصل اسی تاریخی سازش کا ایک حصہ ہے۔
سوشیل میڈیا کے اس دور میں انسانوں کی خدمت کرنے کا ایک ٹرینڈ چل پڑا ہے ہم نے لفظ ٹرینڈ کا استعمال اس لیئے کیا کہ ہر کوئی غالباً اس خدمت کا بدل اپنے فالورس کی تعداد کو بڑھانے یا اس سے روپیئے بٹورنے کی نیت سے کررہا ہو ہوسکتا ہےکچھ خادمین رضاۓ الہی کی خاطر انسانی خدمت کرتے ہوں لیکن اب خدمت خلق کا جذبہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے افراد میں بھی پروان چڑھا ہے جو ایک اچھی بات ہے لیکن کچھ روز قبل ممبئی کے واقعہ نے اس بات کی قلعی کھول دی کہ انسانی جذبہ خدمت انسانوں کی بھوک مٹانے کے لیئے نہیں بلکہ کسی کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرتے ہوۓ اس کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے کے لیئے بھی کی جاسکتی ہے چند روز قبل ممبئی میں جب کینسر کے ٹاٹا نامی دواخانے کے باہر کسی این جی او کی جانب سے بیماروں بے سہارا اور مجبور افراد میں کھانا تقسیم کیا جارہا تھا تب کھانا تقسیم کرنے والے فرد کے سامنے ایک باحجاب خاتون آتی ہے تو وہ کہتا ہے جے سری رام کہوگی تب ہی کھانا ملے گا خاتون نعرہ لگانے سے انکار کردیتی ہے تو اس کو قطار سے باہر کردیا جاتا ہے وہاں موجود ایک صحافی نے اس واقعہ کی ویڈیو بنالی جس کے بعد سوشیل میڈیا پر یہ واقعہ منظر عام پر آیا۔
ناجانے ایسے کتنے واقعات اور بھی ہوتے ہونگے جو منظر عام پر نہیں آتے بہر حال اس واقعہ کے بعد برادر ہوڈ فاؤنڈیشن کا ایک ویڈیو منظر عام پر آیا جس میں بناء کسی شرط کے کھانا تقسیم کیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ آپ کو اللہ اکبر نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے اگر آپ کو بھوک لگی ہو تو بس کھانا کھاؤ ایسی کئی ایک انسانی خدمت گذاروں کی تنظیمیں ہیں جو بناء کسی تفریق کے سارے انسانوں کی خدمت کرتے ہیں کوئی بھوکوں کو کھاناکھلاتا ہے کوئی کپڑے پہناتا ہے کوئی مریضوں کا علاج معالجہ کرواتا ہے اور شائد ان میں بھی سب سے ذیادہ انسانی خدمت کا کام مسلمانوں کی جانب سے ہی کیا جاتا ہے لیکن دین اسلام نے یہ تعلیم دی ہی نہیں کہ تم انسانوں میں تفریق کرو بلکہ دین اسلام اور محمدۖ نے انسانیت کی خدمت کرنے کی ہی تعلیمات سکھائی ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں کے درمیان یہ غیر انسانی حرکتیں کہاں سے آئی؟ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر مذہب نے انسانوں کی خدمت کی تعلیمات دی ہیں تو ایسے واقعات رونما ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟اس کی اہم وجہ ہے کہ جب سے ہندوتوا فسطائیت اس ملک پر حکمرانی میں آئی ہے ان کا سار محور و مرکز ملک کے اقلیتی طبقہ کے خلاف اکثریتی طبقہ کی ذہن سازی کرنا تھا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوچکے ہیں جو اکثریتی طبقہ سناتن ہندو دھرم کا پیرو کار تھا وہ اب ہندوتوا کے نظریہ پر عمل کررہا ہے جس کی تعلیمات اور منشاء یہی ہے کہ یہ ملک ہندو راشٹر ہے اس ملک سے مسلمانوں کو باہر کردیا جاۓ یا ثانوی درجہ کا شہری بنایا جاۓ اس کے لیئے ان پر ظلم و ذیادتی کرتے ہوۓ یہاں کی زمین تنگ کی جاۓ جس کے نظارے ہم پچھلے دس سالوں سے بیف کے نام پر،لوجہاد کے نام پر،ہجومی تشدد کے ذریعہ،شان اقدسۖ میں گستاخیاں،بلڈوزر کاقہر،مدارس کو نشانے پر لینا،مسلم سیاسی قائدین کاایک کے بعد دیگر کا قتل کرنا،مسلم اسکالرز کو جیل کی سلاخوں میں رکھنا،دھرم سنسد کے ذریعہ کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کی محفلیں سجانا یہ سب ہم دیکھتے آرہے ہیں چونکہ یہ سب فسطائی طاقتوں کی ہی سازش کا حصہ ہے۔
یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں اور شائد تھمنے والا بھی نہیں ہے کیونکہ کوئی چیز ختم ہونے کے بجاۓ نئی چیز اور نئے واقعات اس کی جگہ لے رہے ہیں سی اے اے،این آر سی،یکساں سول کوڈ کی سازشیں رچی گیئں پھر اوقاف پر بری نظر ڈالی گئی ان سب کے باوجود اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے حالیہ ہوۓ ہریانہ کے اسمبلی انتخابات کی ایک ریالی میں ہندوؤں کو ذاتوں میں تقسیم کرنے والی سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہم "بنٹیں گے تو کٹیں گے”کیا یہ جملہ آپ کے نزدیک مضحکہ خیز نہیں ہے؟حکومت آپ کی حکمران آپ اور پھر بھی بٹنے کا دھچکا کیوں لگا ہوا ہے؟پھر اس سے آگے کٹنے کی بات کی جارہی ہے کیا یہ سوال یوگی آدتیہ ناتھ سے نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ کون کاٹے گا؟اور آج تک کس نے کس کو کاٹا ہے؟جب کہ اکثریت میں اور حکمرانی میں آپ ہی ہو پھر یہ اکثریتی طبقہ کو بیوقوف بنانے کے سیاسی حربے کیوں؟مرکزی وزیر گری راج نے بھی بہار میں بٹوگے تو کٹوگے کا دم بھر کر ہندو طبقے کے نوجوانوں کو اکسایا بنگال میں چھ اسمبلی حلقہ جات کے ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں متھن چکرورتی نےٹی ایم سی قائد ہمایوں کبیر کے تبصرے پر امیت شاہ کی موجودگی میں سماج کو بھڑکانے کا نفرتی بھاشن دیا جوفرد اس ملک کا داداصاحب پھالکے اور پدما بھوشن ایوارڈ یافتہ ہو جب ایک اتنے بڑے فرد کا ذہن اس قدر بدلا ہو تو ہم اندازہ لگا سکتے کہ عام افراد کی زہن سازی کس طرح کی گئی ہوگی۔
ان ہی نفرت کے شیدائیوں نے پورے سماج کو پراگندہ بنادیا ہے آج انسان انسان کا جانی دشمن بن گیا ہے جب کہ اس ملک کا مسلمان سماج میں سب سے ذیادہ خدمت خلق کا کام انجام دیتا ہے یہ الگ بات ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کا یہ کام کہیں منظم انداز میں تو کہیں غیر منظم اور کہیں انفرادی طور پر انجام دیا جاتا ہے آپ کو یاد ہوگا کورونا کے دوران ہر کوئی اپنی جان کا تحفظ کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہا تھا لیکن اس مہلک دور میں بھی ملک کے مسلمانوں کی جانب سے جو انسانی خدمات کے کام انجام دیئے گئے اس کو آج پورا ملک فراموش کرچکا ہے حتی کے کویڈ سے فوت ہونے والے فرد کے اطراف اہل خانہ کا بھنبھنانا تو دور کی بات ہے بلکہ اس کی آخری رسومات کرنے سے بھی گریز کررہے تھے لیکن ایسے وقت میں بھی مسلمانوں نے اپنی جان کی بازی لگاکر فوت ہونے والے اپنے برادران وطن کی آخری رسومات تک انجام دی لیکن جو انسانی شرمسار کردینے والا واقعہ ممبی میں پیش آیا وہ اپنے آپ میں ایک گھناؤنی حرکت ہے جو کہ ایک بھوکے کو بھی مذہب کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا حالانکہ بھوک کا اپنا کوئی دھرم نہیں ہوتا ایسے واقعات نہ کبھی ملک کا سر اونچا کرسکتے ہیں نہ ہی نہ ملک کو ترقی یافتہ بناسکتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر اس ملک کی شبیہ کو بگاڑنے کا کام کررہے ہیں مسلمانوں سے نفرت اور اس ملک کے سماج کو منقسم کرنا ایک منصوبہ بند سیاسی سازش کا حصہ ہے کاش کہ اکثریتی سماج اس بات کو سمجھ سکے۔بقول امجد علی راجہ
انسان کے روپ میں ہے کچھ حیوان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر