خبر پہ شوشہ “گھوڑے کی قبر “ سے گاڑی کی قبر تک
ریاض ۔ کے این واصف
روزنامہ سیاست میں گاڑی کی قبر بنائے جانے کی خبر شائع ہوئی۔ نیوز پڑھ کر چانک حیدرآباد کے “گھوڑے کی قبر” ذہن میں آئی جو ہم بچپن دیکھتے آئے ہیں بلکہ حیدرآباد کا رہنے والا ہر شخص گھوڑے کی قبر سے واقف ہے۔ یہاں ایک محلہ ہی گھوڑے کی قبر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
شائع شدہ خبر کے مطابق ریاست گجرات کے شہر امریلی مین سنجے پولرا نامی کے ایک بزنس مین نے اپنی گاڑی جو ان کے لئے خوش نصیب ثابت ہوئے تھی کو ناقابل استعمال ہوجانے پر دفن کرکے اس سمادھی بنائی تاکہ ان کی چھیتی گاڑی کی یادگار ہمیشہ قائم رہے۔ سنجے کے مطابق ان کی یہ بخت آور گاڑی نے ان کی قسمت بدل دی۔ ان کا خیال ہے کہ اس گاڑی کی بدولت وہ ایک کامیاب بزنس مین اور دولت مند انسان بن گئے۔
گاڑی کی قبر کی نیوز پڑھ کر گھوڑے کی قبر کے بارے مین جاننے کا تجسس پیدا ہوا۔ گوگل بابا سے رجو ہوئے تو پتہ چلا کہ دیڑھ سو سال قبل حیدرآباد مین کوئی بزرگ رہا کرتے تھے۔ ان ایک یہان ایک گھوڑا تھا جسے وہ دل و جان سے چاہتے تھے۔ جب وہ مرگیا تو انھون نے اس کو دفن کرکے اس سمادھی بنادی۔ حیدرآباد کا یہ علاقہ آج تک گھوڑے کی خبر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
قارئین کرام میرا لکھا ہر شوشہ مزاحیہ جملہ پر ختم ہوتا ہے۔ مگر یہ شوشہ ایک سنجیدہ نوٹ پر ختم ہوگا۔ ایک متمول گجراتی تاجر نے ایک بڑی زمین خریدی اور ۱۵۰۰ افراد کی موجودگی مین اپنی گاڑی کو سپرد خاک کیا۔ جبکہ بڑے شہرون مین آج لوگون کے لئے کسی میت کی تدفین کے لئے دو گز زمین خریدنا ازحد دشوار کن ہوکیا ہے۔ تدفین کا مرحلہ بھی آج مہنگا ہوگیا ہے۔
“زندگی مشکل ہے لیکن موت بھی آساں نہیں”