پنکچر والے اور بکر ایوارڈ

از:مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک
9986437327
زمانہ ہمیشہ بدلتا ہے، اور جب کوئی قوم یا فرد محنت، علم، اور عزم کے ذریعے تاریخ رقم کرتا ہے تو وہ سماجی تعصبات، الزامات، اور تنگ نظری کو نہ صرف رد کرتا ہے بلکہ اُس سوچ کو بھی "پنکچر” کر دیتا ہے جو اسے حقیر جانتی ہے۔ حالیہ دنوں میں اردو دنیا کی ممتاز ادیبہ بانو مشتاق نے "انٹرنیشنل بکر ایوارڈ” حاصل کر کے ایک عظیم مثال قائم کی ہے۔
یہ اعزاز صرف ان کی ذاتی کامیابی نہیں، بلکہ اُن تمام افراد اور اس سماج کی جیت ہے جنہیں برسوں تک "پنکچر والا” یا کمتر سمجھا جاتا رہا۔ہمارے معاشرے میں مخصوص پیشوں کو لے کر ایک تنگ نظری پروان چڑھی ہے، جہاں کچھ طبقات کو ان کی معیشت، لباس، یا مذہبی شناخت کی بنیاد پر کمتر سمجھا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں کچھ حلقے ایک مخصوص مسلم طبقے کو ’پنکچر والا سماج‘ کہہ کر طنز کا نشانہ بناتے رہے ہیں
مگر تاریخ گواہ ہے کہ صلاحیت اور علم نہ ذات دیکھتا ہے نہ پیشہ۔ بانو مشتاق نے اپنی ادبی بصیرت، فکری گہرائی، اور زبان کی نفاست سے جو کارنامہ انجام دیا، وہ اس دقیانوسی سوچ کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔انٹرنیشنل بکر ایوارڈ کسی بھی مصنف کے لیے ایک اعلیٰ ترین بین الاقوامی اعزاز ہے۔ اس ایوارڈ کا ملنا صرف بانو مشتاق کے لیے نہیں بلکہ پوری کنڑا زبان، اس کے قاری، اور اس کے لکھاریوں کے لیے ایک فخر کا لمحہ ہے۔
اس ایوارڈ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ اردو زبان کی تخلیقی قوت آج بھی عالمی سطح پر اپنی پہچان رکھتی ہے۔ اور یہ بھی کہ مسلم خواتین، جو سماج میں اکثر پردے اور پابندیوں کے حوالے سے محدود تصور کی جاتی ہیں، کس طرح بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں۔بانو مشتاق کی یہ کامیابی ان تمام بیٹیوں کے لیے مشعل راہ ہے جو خواب دیکھتی ہیں مگر انہیں سماج کے طعنوں، روایتوں، اور عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ پیغام ہے کہ اگر حوصلہ ہو، تو "پنکچر والی” کہی جانے والی ماں کی بیٹی بھی عالمی ایوارڈ اپنے نام کر سکتی ہے۔آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ سماج کو طبقات میں بانٹنے سے بہتر ہے کہ ہم محنت، دیانت، اور علم کو بنیاد بنائیں۔ بانو مشتاق نے جو مشعل جلائی ہے، اب ضرورت ہے کہ ہم سب اُس روشنی میں اپنے ذہنوں کے اندھیرے دور کریں۔