سرکاری حج وفد کی بحالی ضروری کیوں ؟

ذکی نور عظیم ندوی۔ لکھنؤ
حج ایک عظیم بین الاقوامی دینی اور بعض اعتبار سے ثقافتی اجتماع ہے جسے امت مسلمہ کی وحدت اور باہمی رابطہ کا ایک منفرد مظہر بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کی ادائیگی کیلئےہر سال دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان سرزمین حجاز کا رخ کرتے ہیں اور اس طرح ایک ایسا عالمی پلیٹ فارم آراستہ ہوتا ہے جہاں مختلف ثقافتوں، قومیتوں اور نظریات کے حامل افراد ایک مشترکہ مقصد کے تحت جمع ہوتے ہیں۔
ہمارا ملک ہندوستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی پر مشتمل ملک ہونے کی وجہ سےاس اجتماع میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہےجس میں ملكى حاجیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سےزائد ہوتی ہے، چند سالوں قبل تک ہندوستانی حکومت کی جانب سے حج کے موقع پر کثیر رکنی اعلیٰ سطحی وفد سعودی عرب جاتا تھا،جو نہ صرف حاجیوں کے مسائل کی براہ راست نگرانی کرتا تھا بلکہ سعودی حکام اور دیگر ملکوں کے نمائندوں سے ملاقات کر کے سماجی، مذہبی اور سفارتی مسائل پر تبادلہ خیال بھی کرتا تھا۔
یہ وفد حاجیوں کی آمد و رفت، ان کی رہائش، مشاعر مقدسہ، اس سے متعلق انتظامات، صحت اور نقل و حمل جیسے امور کا جائزہ لیتا، ان میں درپیش مشکلات کی نشاندہی کرتا اور ذمہ داروں سے تبادلہ خیال کرکےان کا حل نکالنے کی کوشش کرتا۔ اور حج پالیسی مرتب کرتے وقت ان کی سفارشات اور تجویزوں کی کافی اہمیت ہوتی جس سے حج میں مختلف قسم کی سہولتیں اور مختلف قسم کے نئے نظام کو متعارف کرنے میں آسانی ہوتی۔
اس وفد سے اگر ایک طرف یہ پیغام جاتا کہ ہندوستانی حکومت کو اپنے شہریوں بشمول اقلیتوں کے دینی ومذہبی امور سے بھی دلچسپی ہے تو دوسری طرف حاجیوں کو بھی اپنی فکر ، تحفظ اور اعتماد کا احساس ہوتا ۔
لیکن گزشتہ چند سالوں سے وفدنہ بھیجنے کی وجہ سےکئی پہلوؤں سے نقصان ہوا ۔حاجیوں کے مسائل سے براہ راست واقفیت ، اسکے جائزہ کے مواقع اور اس کے فوری حل کے امکانات تلاش کرنے، متعلقہ ذمہ داروں سے براہ راست بات چیت کے مواقع کا فقدان اور بین الاقوامی برادری سے ہندوستانی نمائندگی کا کمزور ہونا، وغیرہ وغیرہ۔ اور اس طرح نہ صرف حاجیوں کی انفرادی سطح پر سہولت پر اثر پڑا بلکہ ایک وسیع سفارتی خلا بھی پیدا ہوا۔
عام طور پر ہندوستانی حاجیوں کو رہائش، ٹرانسپورٹ اور صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن وفد کی غیر موجودگی میں ان مسائل پر براہ راست گفت و شنید کے بعد ان کے فوری حل نکالنے اورا گر اس کا تعلق حکومت ہند سے ہو تو اس تک اس مسئلہ کو پہونچانے کی امید معدوم ہوجاتی ہے۔ عام طور پر حاجیوں کو رہائش اور نقل و حمل کے مسائل کی شکایت رہتی ہے، گزشتہ سال کافی افراد مختلف بیماریوں اور گرمی کی شدت کی وجہ سے مختلف مسائل کا شکار ہوئے لیکن اس کے اسباب اور حفاظتی تدبیروں اور حجاج کی روانگی سے پہلے اس کے تعلق سےان کی مناسب رہنمائی نہ کی جاسکی۔
جب ہم حالیہ بین الاقوامی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تواس وفد کی بحالی مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔گذژتہ دنوں ملک میں پہلگام حملے اور سندور ایکشن کی وجہ سے عالمی سطح پرکچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور عالمی برادری میں ہندوستان کے بارے میں الگ الگ نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں ہندوستان نے مختلف ممالک میں سفارتی وفود بھیج کر اپنے موقف کی وضاحت کی کوشش کی، لیکن یہ عمل مہنگا اور وقت طلب ہے۔ اگرسرکاری حج وفد کی بحالی کے ذریعہ یہ کام ایک باوقار اور متحرک ا وفد انجام دیتاتو اس سے نہ صرف حاجیوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملتی بلکہ سفارتی نقطہ نظر سے بھی ایک مؤثر پلیٹ فارم ثابت ہو تا۔
اعتبار سے ایک ایسی عالمی تقریب ہے جہاں دنیا بھر کے بااثر مسلم ممالک کے نمائندے موجود ہوتے ہیں، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک فعال وفد بھیج کر ایک ہی جگہ پر متعدد ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور اپنے موقف کو براہ راست پیش کرنے کا موقع ملتا۔ یہ ایک مؤثر، کم خرچ اور نتیجہ خیز سفارتی عمل ہوتا۔اور جہاں الگ الگ دوروں میں متعدد الگ الگ وفود ، وہیں صرف ایک مقدس موقع پر اپنی بات عالمی سطح پر پہنچایا جا سکتا تھا۔
حج کا موقع نہ صرف مذہبی بلکہ ثقافتی اور سفارتی نقطہ نظر سے بھی ایک منفرد پلیٹ فارم ہے۔ یہاں موجود تنوع دنیا کے کسی اور اجتماع میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ گذشتہ سالوںکے اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً 18 سے 20 لاکھ حاجی حج کرتے ہیں، جن میں سے ہر ایک مختلف پس منظر، ثقافت اور قومیت سے تعلق رکھتاہے۔ اس تنوع کے باوجود، حج ایک ایسی تقریب ہے جو اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیتی ہے۔ ہندوستان جیسا کثیر المذاہب اور جمہوری ملک اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے سیکولر تشخص کو عالمی سطح پر اجاگر کر سکتا ہے۔ وفد کی موجودگی اس بات کی عکاسی کرتی کہ ہندوستان اپنی مسلم آبادی کے مذہبی جذبات کی قدر کرتا ہے اور ان کیلئے سہولیات فراہم کرنے کے تئیں پرعزم ہے۔مزید برآں، یہ وفد ہندوستان کے قومی بیانیے کو عالمی برادری تک پہنچانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں ہندوستان کو عالمی میڈیا میں بعض اوقات منفی انداز میں پیش کیا گیا، جس کی وجہ سے اس کے سیکولر اور جمہوری تشخص پر سوالات اٹھائے گئے ۔ حج کے موقع پر ایک فعال وفد ان غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، وفد کے ارکان سعودی حکام اور دیگر ممالک کے نمائندوں سے ملاقاتوں میں ہندوستان کے اندر مذہبی ہم آہنگی اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔حج کے دوران ہندوستانی حاجیوں کو درپیش عملی مسائل بھی اس وفد کی موجودگی سے بہتر طور پر حل ہو سکتے ہیں۔
سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں حج کے انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جیسے کہ اسمارٹ ایپس اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، لیکن ہندوستانی حاجیوں کے لیے ان سہولیات تک رسائی بعض اوقات زبان اور معلومات کی کمی کی وجہ سے محدود ہو جاتی ہے۔ وفد ان تفصیلات کو جان کر ٹریننگ پروگراموں میں اس سلسلہ میں توجہ اور دیگر وسائل سے اسےمفید تر بنانے میں بھی معاون ہوسکتا ہے۔لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت ہند دوبارہ حج کے موقع پر اعلی سطحی وفد بھیجنے کی روایت کو بحال کرے۔ یہ قدم حاجیوں کی عملی مشکلات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے سیکولر تشخص کو عالمی سطح پر واضح کرنے میں معاون ہو گا۔
وفد کی موجودگی ہندوستان سعودی عرب دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کر سکتا ہے، دیگر مسلم ممالک کے نمائندوں سے بات چیت کر کے اعتماد کی فضا پیدا کر سکتا ہے اور اپنے قومی بیانیے کو بہتر انداز میں پیش کر سکتا ہے۔یہ اقدام صرف حاجیوں کے لیے ایک سہولت نہیں بلکہ ایک مضبوط سفارتی حکمت عملی بھی ہے، جس سے ہندوستان کا وقار بلند ہو گا، اس کی اقلیتوں کو اطمینان حاصل ہو گا اور بین الاقوامی برادری میں اس کا مقام مزید مستحکم ہو گا۔ اس لیے یہ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت دوبارہ اس سمت قدم اٹھائے، اور حج کے اس عظیم موقع کو ایک ہمہ جہت سفارتی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرے۔
z
akinoorazeem@gmail.com