وقف بائی یوزر سے متعلق عدالت کا تبصرہ باعث تشویش : صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی

وقف بائی یوزر سے متعلق عدالت کا تبصرہ باعث تشویش
عدالت کے عبوری فیصلے پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی تنقید، کہا کہ ہماری مساجد اور قبرستانوں کا تحفظ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وقف بائی یوزر کے اصولی موقف کو تسلیم نہ کیا جائے
نئی دہلی:15/ ستمبر (اردو لیکس) جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا محمود اسعد مدنی نے وقف ایکٹ 2025 کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وقف بائے یوزر سے متعلق عدالت کا تبصرہ ہمارے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے جس پر سنجیدہ غور و فکر نا گزیر ہے۔ و ناگزیرمولانا مدنی نے کہا کہ ہماری طرف سے عدالت میں اس قانون کے متعلق کئی سنگین خدشات پیش کیے گئے تھے
، جن میں سے ایک یہ تھا کہ کلکٹر یا دیگر انتظامی افسران کو وقف جائیداد کی نوعیت طے کرنے کا غیر معمولی اختیار دینا اور وقف ٹربیونل کا خاتمہ مذہبی حقوق میں سرکاری دینا اور مداخلت کا ذریعہ بنے گا۔ یہ ایک حد تک اطمینان بخش ہے کہ سپریم کورٹ نے اس پر عبوری روک لگا دی ہے اور دیگر کچھ معاملات میں بھی جزوی راحت دی ہے۔ تاہم سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ وقف بائے یوزر کا ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں چار لاکھ سے زائد وقف جائیدادیں وقف بائے یوزر کے زمرے میں شامل ہیں جن میں ایک لاکھ انیس ہزار مساجد اور ڈیڑھ لاکھ قبرستان کی جائیدادیں ہیں۔
ان میں سے 80 فیصد سے زائد رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ موجودہ ترمیمی قانون نے وقف بائے یوزر کو سرے سے کالعدم قرار دے دیا ہے اور جزوی ترمیم کے ذریعہ پہلے سے رجسٹر ڈ جائیدادوں کو سٹی کر کے یہ ار دینے کی گئی کوئی بڑا ہوگا۔ کہ ترمیم ہمارے حل ہو۔ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا۔ حالاں کہ یہ ترمیم ہمارے اصل خدشے کا حل نہیں ہو سکتی۔مولانا مدنی نے کہا کہ وقف بائے یوزر کو قانون سے خارج کرنا اسلامی اصولوں اور صدیوں پرانی مذہبی روایت کی کھلی نفی ہے
۔ یہ براہ راست مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر ضرب ہے جب کہ آئین ہند نے ان حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جمعیہ کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ وقف ایک خالص دینی و شرعی معاملہ ہے، اس سے متعلق قانون میں ایسی دفعات شامل نہیں ہونی چاہئیں جو اس کی مذہبی حیثیت کو مجروح کریں یا مسلمانوں کے حق مذہبی آزادی میں رکاوٹ ڈالیں۔ لہذا سپریم کورٹ کا یہ عبوری فیصلہ اُس وقت تک قابل اطمینان نہیں کہا جا سکتا جب تک وقف بائے یوزر کو مکمل تحفظ نہ مل جائے۔
مولانا مدنی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اپنے عبوری فیصلے کے پیرا 143 تا 152 میں جو تبصرہ کیا ہے، اس سے وقف بائے یوزر کے تحفظ کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے اور اس کی زد میں زیادہ تر ہماری مساجد اور قبرستان کی جائیدادیں ہیں۔ واضح ہو کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وقف بائے یوزر کا خاتمہ بادی النظر میں یک طرفہ نہیں ہے کیونکہ 1923 کے وقف ایکٹ سے ہی وقف کے اندراج کی شرط موجود تھی۔
اگر وقف جائیدادیں ایک صدی سے زائد عرصے تک رجسٹرڈ نہیں ہوئیں تو اب شکایت نہیں کی جاسکتی۔مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء اپنے وکلا اور ملی اداروں کے ساتھ مل کر پوری سنجیدگی اور حکمت کے ساتھ یہ جد و جہد جاری رکھے گی تا کہ آئین ہند میں دیے گئے مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔