شملہ میں مسجد کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ہندو تنظیموں کا پرتشدد احتجاج _ پولیس پر پتھراؤ، رکاوٹیں توڑ دیں، پولیس کا لاٹھی چارج، واٹر کینن کا استعمال

نئی دہلی _ 11 ستمبر ( اردولیکس ڈیسک) مختلف ہندو تنظیموں بشمول دیو بھومی ، ہندو جاگرن منچ نے چہارشنبہ کو ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں ایک مسجد کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے گرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا ہے۔، شملہ میں واقع سنجولی مسجد کا راستہ دھلی ٹنل سے گزرتا ہے۔ مظاہرین نے ہنومان چالیسہ پڑھی اور یہاں سڑک پر جئے شری رام کے نعرے لگائے۔
مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹیں توڑ دیں۔ پولیس نے دو بار لاٹھی چارج کیا اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔ پتھراؤ اور جھڑپوں میں ایک مظاہرین اور ایک پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
سنجولی مسجد 1947 سے پہلے تعمیر کی گئی تھی۔ 2010 میں جب اس کی مستقل عمارت کی تعمیر شروع ہوئی تو میونسپل کارپوریشن میں شکایت درج کروائی گئی۔ اب یہ مسجد 5 منزلہ ہے۔بتایا جاتا ہے کہ میونسپل کارپوریشن نے 35 مرتبہ غیر قانونی تعمیرات گرانے کے احکامات دیے ہیں۔
تازہ تنازعہ 31 اگست کو شروع ہوا، جب دونوں گروپوں کے درمیان لڑائی ہوئی۔ اس کے بعد ہندو تنظیموں نے مسجد کی غیر قانونی تعمیر کو گرانے کا مطالبہ کیا۔
سنجولی میں پولیس نے ہندو جاگرن منچ کے رہنما کمل گوتم کو حراست میں لے لیا ہے۔ ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ان کے ایک درجن رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، ڈرون کے ذریعے علاقے کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ دھلی ٹنل کے قریب ٹریفک روک دی گئی ہے۔
ڈی سی انوپم کشیپ نے سنجولی میں دفعہ 163 نافذ کر دی ہے۔ اس کے تحت صبح 7 بجے سے رات 11:59 بجے تک 5 یا اس سے زیادہ لوگوں کو جمع ہونے یا ہتھیار لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ پولیس نے منگل کی رات سنجولی میں امن برقرار رکھنے کے لیے فلیگ مارچ بھی کیا تھا۔
سرکاری و خانگی دفاتر، اسکول، بازار مکمل کھلے رہیں گے۔ کسی کو احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
سنجولی مسجد کے خلاف احتجاج کیوں شروع ہوا؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق مسجد کے خلاف احتجاج 30 اگست کو اس وقت شروع ہوا جب ، یشپال سنگھ نامی بزنس کانگریسی کونسلروں اور بی جے پی کے کارکنان اور سنجولی کے مقامی لوگوں کے ساتھ مسجد کے باہر جمع ہوئے اور ‘غیر قانونی’ ڈھانچہ کے خلاف احتجاج کیا۔
جس کے بعد اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نصف درجن لوگوں نے ملیانہ علاقے میں یشپال سنگھ اور چند دوسرے تاجروں پر لاٹھیوں سے حملہ کر کے ان میں سے چار کو زخمی کر دیا۔ اس حملے میں ملوث گلنواز (32)، شارق (20)، سیف علی (23)، روہت (23)، ریحان (17) سمیر (17) ریحان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ملزم کا تعلق یوپی کے مظفر نگر سے ہے جبکہ ایک ریحان دہرادون کا رہنے والا ہے۔
اسی دوران دیہی ترقی اور پنچایت راج کے وزیر انیرودھ سنگھ نے کہا کہ مسجد سرکاری زمین پر بنائی گئی ہے اور یہ معاملہ گزشتہ 14 سالوں سے زیر سماعت ہے۔