مضامین

اشتعال انگیزی نہیں 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ہندوستان میں اس وقت نفرت کی مارکیٹنگ کی جا رہی ہے ، اور تکثیری سماج کے ذریعہ اقلیتوں کو ہراساں کرنے کی جو مہم چل رہی ہے، اس نے یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ سیکولرازم، رواداری اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی معنویت کھوتی جا رہی ہے، فرقہ پرست طاقتیں ہمیں نرم چارہ سمجھ رہی ہیں اور ہم ان سے بھائی چارگی کی توقع لیے بیٹھے ہیں، اس کے لیے ہم کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہیں، لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، ہماری ساری کوششیں فرقہ پرستوں کی منافرت پھیلانے والی ترکیبوں اور اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے غیر مؤثر ثابت ہو رہی ہیں اور ہم نفرت کی اس تیز آندھی میں محبت کے لئے اپنے جلائے ہوئے چراغ کو بجھتا دیکھنے کے لیے مجبور ہیں۔
 ان حالات میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک سخت حکم آیاہے، فاضل ججوں نے دہلی، اتر پردیش اور اترا کھنڈ حکومت کو اپنے سخت ترین حکم میں کہا ہے کہ اشتعال انگیز بیانات پر روک لگنی چاہیے اور اشتعال انگیزی کرنے والا کوئی ہو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، سپریم کورٹ نے پولیس کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ کسی کے ایف آئی آر درج کرانے کا انتظار نہ کرے، بلکہ اس کا از خود نوٹس لے کر کیس درج کرے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح کر دیاہے کہ ایسے معاملات میں کارروائی کا نہ ہونا یا کارروائی میں ناکامی سپریم کورٹ کی توہین کے مترادف ہوگا۔
ملک میں اشتعال انگیز بیانات اور نفرت آمیز تقریروں کے خلاف شاہین عبد اللہ نے سپریم کورٹ میں عرضی لگائی تھی، جس کی سماعت جسٹس کے ایم جوزف اور رشی کیش رائے کی دو نفری بینچ نے کی، دونوں ججوں نے صاف طور پر کہا کہ ’’عدالت پر بنیادی حقوق کی حفاظت اور آئینی اقدار بالخصوص قانون کی حکمرانی اور ملک کے سیکولر جمہوری کردار کے تحفظ کا فرض عائد کیا گیا ہے‘‘۔ جسٹس رشی کیش نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ اس طرح کے بیانات ایک ایسے ملک کے لیے کافی چونکا دینے والے ہیں، جو مذہب کے سلسلے میں غیر جانبدار ہو،‘‘ جب کہ جسٹس کے ایم جوزف کا احساس تھا کہ ’’اکیسویں صدی میں جب ہندوستان کو سیکولر اور روادار معاشرہ کے طور پر سامنے آنا چاہیے مذہب کے نام پر سماجی تانے بانے کو تباہ کیا جا رہا ہے، ہم نے ایشور کو اتنا چھوٹا کر دیا ہے کہ اس کے نام پر جھگڑے اور فسادات ہو رہے ہیں۔‘‘
 یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے ، جب سپریم کورٹ نے سخت رخ اپنا یا ہے، اس کے قبل ہماچل پردیش کے دھرم سنسد میں نفرت انگیز تقریر کے خلاف جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس سی ٹی روی کمار نے اپریل میں جاری اپنے ایک فیصلے میں اس قسم کی تقریر پر روک لگانے کو یقینی بنانے کا حکم دیا تھا۔ ۱۰؍ اکتوبر کو چیف جسٹس یویو للت اور جسٹس ایس روندر بھٹ کی بینچ نے صاف طور پر کہا تھا کہ نفرت انگیز بیانات کے سلسلے کو روکنے کے لیے حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے، جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس رشی کیش رائے کی اسی بینچ نے گذشتہ ستمبر میں سرکار سے دریافت کیا تھا کہ مرکزی حکومت اس کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی ہے، اور لاء کمیشن نے ۲۰۱۷ء میں جو ہدایت دی تھی کہ ہیٹ اسپیچ کی تعریف متعین کی جائے، اس پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ لیکن سرکار پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا کیوں کہ یہ سرکارہی گونگی، بہری ہے۔
 دیر سے ہی سہی ، عدالت کا موجودہ حکم اب تک کے فیصلوں میں سب سے سخت ہے، اگر یہ فیصلہ پہلے آیا ہو تا تو گڑگاؤں کی مسجد کو شر پسندوں کے حملے سے بچایا جا سکتا تھا، دھرم سنسد، وشوہندو پریشد کے اجتماعات اور ہندویووا واہنی کے پروگرام میں اشتعال انگیزی نہیں ہوتی تو ، دہلی فساد کو روکا جا سکتا تھا، اگر حکومت اس معاملہ میں سخت ہوتی تو مسلمانوں کے معاشی وتجارتی بائیکاٹ کا بر ملا اعلان کرنے والے رکن پارلیامنٹ پر ویش ورما اور اتر پردیش کے رکن اسمبلی نند کشور گوجر آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے، پر دیش ورما نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مسلمانوں کا دماغ ٹھیک کرنا ہے تو ان کا مکمل بائیکاٹ کردو، نہ خرید وفروخت کرو اور نہ مزدور دو۔
اس نفرت انگیز اور شرمناک بیان کا حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا، جس سے ان کے حوصلے اور بلند ہو گیے اور یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، عالمی سطح پر اس طریقہ کار کی وجہ سے ہندوستان کو بد نامی اور خفت کا سامنا کرنا پڑا، اب بھی وقت ہے کہ سپریم کورٹ کی اس ہدایت پر سختی سے عمل کرکے ہندوستان سے نفرت کی فضا کو ختم کیا جا ئے تاکہ، اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ بحال ہو سکے۔
خود کشی کے بڑھتے واقعات
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مسائل کی بہتات، پریشانیوں کی کثرت ، مایوسی کے غلبہ ، خاندانی جھگڑے، نفسیاتی تناؤ، عشق ومحبت میں ناکامی کی وجہ سے انسان پر مایوسی کی ایسی کیفیت بھی طاری ہوتی ہے کہ وہ زندگی کو ہی اپنے لیے بوجھ سمجھنے لگتا ہے، اسے لگتا ہے کہ اس روئے زمین پر اس کا وجود بے کار اور فضول ہے، اسلامی افکار واقدار سے د ور ہونے کی وجہ سے اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ زندگی ہماری نہیں ہے، اللہ کی دی ہوئی ہمارے پاس امانت ہے، نہ ہمارا جسم ہمارا ہے اور نہ ہماری روح ہماری ہے، جب یہ چیزہماری ہے ہی نہیں تو ہم اس کو کس طرح خود سے ختم کرنے کا حق رکھتے ہیں،موت تو جس طرح آئے بر وقت ہی آتی ہے، لیکن اس وقت کا علم ہمیں نہیں ہے اورہمیں موت کو قریب کرنے والے اعمال سے گریز کی تعلیم دی گئی ہے اور اپنے کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا گیا ہے ۔
 لیکن اس بات کو سمجھنے والے دنیا میں بہت کم لوگ ہیں، اور ڈپریشن کے نتیجے میں وہ خود کشی جیسا بزدلانہ عمل کر بیٹھتے ہیں، حالاں کہ ہندوستانی قانون کے اعتبار سے یہ قابل مؤاخذہ جرم ہے، لیکن یہ مواخذہ بچ جانے کی شکل میں ہی ہو سکتا ہے، ایک پولیس والے کی یہ بات سچی لگی کہ رسی بھی آپ کی ہو اور گلہ بھی آپ کا، تو بھی ہم پھندہ لگانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
 ابھی حال میں این سی بی آر ۲۰۲۲ء کی رپورٹ سامنے آئی ہے، جس کے مطابق ۲۰۲۱ء میں ایک لاکھ چونسٹھ (۶۴۰۰۰) ہزار سے زیادہ لوگوں نے خود کشی کرکے اپنی زندگی ختم کر لی، ان میں انتیس لاکھ مرد ، پینتالیس ہزار چھبیس(۴۵۰۲۶) عورتیں، اٹھائیس(۲۸) ، تیسری جنس (ٹرانس جنڈر) تھی، یہ تعداد ۲۰۲۰ء کے مقابلہ ۴ء ۷ فی صد زیادہ ہے۔
 یہ بات اچھی ہے کہ بہار میں خود کشی کے واقعات پورے ہندوستان سے کم ۷ء ۰ ؍ فی صد ہیں، جب کہ پورے دیش میں خود کشی کا اوسط بارہ فی صد ہے، پٹنہ میں ۷ء ۴۲؍ فی صد خود کشی کیواقعات میں کمی آئی ہے، ۲۰۲۱ء میں بہار میں آٹھ سو ستائیس (۸۲۷)لوگوں نے خود کشی کی تھی، ۲۰۲۰ء میں یہ تعداد آٹھ سو نو(۸۰۹) تھی۔
 خود کشی کے واقعات کو روکنے میں دوست احباب اور خاندان کا بڑا اہم رول ہے، ایسے لوگ جو ڈپریشن کے شکار ہیں، انہیں الگ تھلگ نہ رہنے دیں، ان کی جذباتیت کو کم کرنے کی کوشش کریں، انہیں یقین دلائیں کہ تمہاری زندگی تمہارے پاس خداکی امانت ہے،ا س کی من پسند چیزوں کو فراہمی اور ڈپریشن کے اسباب کو دور کرنے کی کوشش اسے زندگی کی رعنائیوں کی طرف لوٹا سکتی ہے، اور جیسے ہی اسے یقین ہو گا کہ زندگی بڑی خوبصورت ہے وہ خود کشی جیسے انتہائی قدم سے باز آجائے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button