مضامین

الحاج انجینئر محمد صالح

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
  امارت مجیبیہ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ دربھنگہ کے سکریٹری، امارت شرعیہ کی مجلس ارباب حل وعقد کے رکن، مجلس شوریٰ کے مدعو خصوصی، با وقار ، بردبار، عبادت گذار، صالحیت اور صلاحیت کے مرقع، اسم با مسمیٰ انجینئر محمد صالح ساکن مہدولی، دربھنگہ کا ۲۹؍ ربیع الاول ۱۴۴۴ھ مطابق ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء بروز بدھ بوقت ساڑھے سات بجے صبح ان کے آبائی مکان واقع مہدولی میں انتقال ہو گیا، گذشتہ اتوار کو مولانا سہیل احمد ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ کے ساتھ عیادت کے لیے میری حاضری ہوئی تو وہ ماہتاب صاحب کے گھر سے اپنے گھر منتقل ہونہیں رہے تھے، کیے جا رہے تھے، منظر بالکل جنازہ جیسا تھا، وہ بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے اور چار کاندھوں پر سوار تھے، کوئی چار ماہ قبل ہڈی کا کینسر ثابت ہوا تھا، میدانتا پٹنہ اور بنارس میں علاج جاری تھا، جب ہم لوگ حاضر ہوئے تھے، ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھا اور سانس کی ڈور ٹوٹنے کے لیے دو دن کی مدت مقرر کی تھی ، قوت ارادی مضبوط تھی ، وقت مقرر دو دن بعد کا تھا، اس لیے دو دن اور کھینچ لے گیے، عیادت کے لیے حاضری ہوئی تھی تو آنکھوں سے آنسو جاری تھا، مصافحہ کے ہاتھ اٹھا رہے تھے اور وہ گر، گر جا رہا تھا، ہم لوگوں نے ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور مل کر بجھے ہوئے دل کے ساتھ واپس آگیا، اندیشہ یہ بھی تھا کہیں راستہ ہی سے واپس نہ ہونا پڑے، جو حالت تھی، اس میں یہ اندیشہ بے وجہ بھی نہیں تھا، ہم لوگ واپس ہو گیے، چار روز کے بعد سانس کی رفتار جو عیادت کے وقت ناک سے زیادہ منہ سے قائم تھی ، وہ بھی ٹوٹ گئی، لاولد تھے پس ماندگان میں ایک اہلیہ ، ایک بھائی کو چھوڑا، حضرت امیر شریعت کے حکم اور نائب امیر شریعت کے مشورہ سے ایک وفد نے جنازہ میں شرکت کی ، جس میں مولانا سہیل احمد ندوی مولانا مجیب الرحمن دربھنگوی اور رقم الحروف شامل تھا، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز مغرب مفتی خبیب احمد صاحب سابق قاضی امارت شرعیہ دربھنگہ نے پڑھائی او رمقامی قبرستان مہدولی میں تدفین عمل میں آئی ، سینکڑوں لوگ ان کو آخری منزل تک پہونچانے میں شریک تھے، محتاط اندازہ کے مطابق ان کی تعداد پندرہ سو رہی ہوگی۔
 انجینئر محمد صالح بن نبی اختر (م ۳۰؍ مارچ ۱۹۹۰ء ) بن عبد الباری کی ولادت ووٹر شناختی کارڈ کے مطابق۱۹۴۲ء میں حسن چک دربھنگہ میں ہوئی، ان کی نانی ہال مہدولی تھی ،ا ن کے نانا کا نام محمد غفران (م۱۹۳۸) بن فضل الٰہی تھا، چنانچہ جلد ہی وہ حسن چک سے اپنی نانی ہال مہدولی منتقل ہو گیے۔ وہ تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور تین بہنوں میں ایک بہن سے بڑے تھے، دو بھائی ڈاکٹر ظفیر الدین صاحب (م۲۰۲۰ئ) اور محمد سالم صاحب بال بچوں کے ساتھ امریکہ منتقل ہو گیے، وہ دربھنگہ میں تنہا رہ گیے، تنہائی کا کرب وہ پوری زندگی جھیلتے رہے ۔
 محمد صالح صاحب کی ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں ہوئی، ۱۹۵۷ء میں انہون نے مسلم ہائی اسکول سے میٹرک اور سی ام او سائنس کالج دربھنگہ سے آئی ایس سی اور دربھنگہ میں واقع اسکول آف انجینئرنگ سے ٹیکنیکل میں ڈپلومہ کیا، معاش کے حصول کے لیے رانی گنج بردوان مغربی بنگال کے پیپر مل میں ملازت کی، لیکن زمین وجائیداد کی دیکھ بھال کے لیے والد نے صرف چار سال کے بعد وطن بلا لیا، پھر پوری زندگی ملازمت نہیں کی، اپنی زمینداری اور جائیداد کے تحفظ میں وقت گذارا۔
 محمد صالح صاحب کی شادی بارو بیگو سرائے میں ہوئی تھی، ان کے سسر کا نام مولانا ابو القاسم جمیل طیب (م ۱۹۸۵) تھا، جو سید محمد طیب (م ۱۹۰۶) بن سید رحمت علی کے لڑکا تھے۔
 انجینئر محمد صالح کا شمار بڑے اہل خیر میں ہوتا تھا، انہوں نے بہت سارے بچوں کو اپنے صرفہ سے عالم حافظ بنایا ، عصری تعلیم حاصل کرنے والوں کی مالی مدد کی ، وہ بند مٹھی سے مدد کے قائل تھے، ان کی اہلیہ بھی عموما ان کی داد ودہش سے نا واقف رہا کرتی تھیں، وہ نام نمود سے کوسوں دور رہا کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۵ء میں جب امارت مجیبیہ ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ مہدولی دربھنگہ میں قائم ہوا تو زمین کے بڑے حصے کی فراہمی کے باوجود انہوں نے ادارہ کے نام میں اپنا نام شامل کرنا گوارہ نہیں کیا ، اور پوری زندگی بانی سکریٹری کی حیثیت سے ادارہ کو پروان چڑھاتے رہے ، اور دامے درمے ، قدمے سخنے ہر قسم کے تعاون سے کبھی گریز نہیں کیا، ان کی مسلسل جد وجہد کے نتیجے میں امارت مجیبیہ ٹکنیکل کو وقار واعتبار حاصل ہوا، ابھی انتقال سے چند ماہ قبل انہوں نے ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کے زمین کی فراہمی کے کاغذات درست کرائے تھے۔
 انجینئر صاحب سے میری پہلی ملاقات فروری ۲۰۰۹ء میں دربھنگہ میں ہوئی تھی، موقع تھا دربھنگہ میں دار القضاء کے قیام اور قاضی کے اعلان کا، مولانا سید نظام الدین صاحبؒ امیر شریعت سا دس کے ساتھ احقر بھی گرد کارواں کے طور پر شریک تھا، اس موقع سے میری کتاب نقد معتبر اور یادوں کے چراغ کا اجرا بھی عمل میں آیا تھا، اور نگر تھانہ والی مسجد کے افتادہ حصہ پرجو امارت شرعیہ کے نام وقف تھا اس پر دار القضاء کی عمارت کی تعمیر کے لیے سنگ بنیاد اکٹھا کیا گیا تھا، تعمیرات کے لیے دربھنگہ سے فراہمی مالیات کا کام میرے ذمہ تھا، میرے ساتھ انجینئر محمد صالح ماسٹر صفی الرحمن عرف ممتازبابو جناب زبیر صاحب بھی ہوا کرتے تھے، نیچے کا حصہ تیار ہونے کے بعد وہاں کی کمیٹی والوں نے دوسرا مصرف نکال لیا اور امارت شرعیہ نے جن مقاصد کے لیے جد وجہد کی تھی اس کی تکمیل نہیں ہو سکی، لیکن محمد صالح صاحب اور دیگر رفقاء نے اس موقع سے جس قدر امارت شرعیہ سے والہانہ تعلق اور وارفتگی کا ثبوت دیا ،اس کی یاد آخری دم تک باقی رہے گی۔
 وہ ایک بافیض انسان تھے، فیض جس قدر عام ہوتا ہے اسی قدر ان کی جدائی سے نقصان پہونچتا ہے، یقینا انجینئر محمد صالح صاحب کے انتقال سے ہم نے ایک با فیض شخص کو کھ

متعلقہ خبریں

Back to top button