مضامین

اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے – لسانی تعصب پسندوں پر سپریم کورٹ کا زبردست طمانچہ

تحریر:سید سرفراز احمد

 

ہمارا ملک ایک متنوع تہذیب کا گہوارہ ہے۔جہاں الگ الگ مذاہب کی الگ الگ تہذیب و ثقافت دیکھنے کو ملتی ہے۔حتیٰ کہ ملکی ریاستی و علاقائی سطح پر بھی مختلیف اقسام کی تہذیب و ثقافت پائی جاتی ہے۔بلکہ علاقائی سطح پر پائی جانے والی زبانوں کو بھی بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اور اس کے فروغ کے لیئے ریاستی حکومتیں منصوبہ بھی تیار کرتی ہیں۔اس کے علاوہ شعبہ تعلیم میں بھی علاقائی زبانوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔جس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ علاقائی زبان ہمیشہ ذندہ رہے۔یقیناً کسی بھی زبان کو زندہ رکھنے کے لیئے یا اس کے وجود کی بقاء کے لیئے جب تک حکومتیں حساس رویہ نہیں اپناتی تب تک زبانوں کو فروغ نہیں دیا جاسکتا۔بلکہ حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ لسانی بنیادوں پر کسی کے بھی ساتھ امتیازی رویہ اختیار نہ کریں۔بلکہ اعتدال کی راہ کو اپناتے ہوۓ ہر زبان کے ساتھ منصفانہ اقدامات کریں۔چونکہ کوئی بھی زبان کسی خاص مذہب کی پیدا کردہ نہیں ہوتی۔اگر حکومتیں اس جملہ کو مد نظر رکھتے ہوۓ سماج میں مناسب اقدامات کرتی ہیں۔اور اپنی ریاست کی رعایا کے اندر یہ شعور بیدار کرتی ہیں تو یقین جانیئے کہ ملک کی کسی بھی ریاست میں لسانی تعصب پیدا نہیں ہوسکتا۔

 

اس وطن عزیز میں اردو زبان کی یہ خوبی رہی ہے کہ اس کو ہمیشہ ہم نے سرخیوں میں رہتے دیکھا ہے۔یہ اور بات ہوسکتی ہے کہ اب وہ سرخیاں منفی اور مثبت دونوں ہوسکتی ہیں۔چونکہ اردو زبان اس ملک کی کوئی علاقائی زبان نہیں ہے۔بلکہ یہ ایک عالمی زبان ہے۔ہاں اس کی پیدائش اس وطن عزیز میں ہوئی ہے۔آپ نے ہر بار یہ محسوس کیا ہوگا کہ اردو زبان جتنی میٹھی ہے وہ تعصب پسندوں کو اتنی ہی کڑوی لگتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر تعصب پسندوں کو بھلا ایک زبان سے کیسی تعصبیت؟جس کا جواب یوں دیا جاسکتا کہ تعصب کی نگاہ سے جس اردو زبان کو دیکھا جاتا ہے۔اصل میں وہ تعصب پسند گروہ اس زبان کو مسلمانوں سے منسوب کرکے دیکھتا ہے۔زبان کو مذاہب میں تقسیم کرنا دراصل زبان سے گھٹن کی علامت ہے۔ایسے ہی اس ملک میں اردو زبان سے بغض اور نفرت رکھنے والا ایک بڑا طبقہ ہے۔جو اردو زبان کو ہندو مسلم میں تقسیم کردیا ہے۔اس وقت ملک کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ پہلے مذہب کی بنیاد پر انسانوں سے نفرت کی جانے لگی۔پھر مذہب سے جڑی چیزیں داڑھی،ٹوپی،لباس وغیرہ سے نفرت اور پھر اب زبان بھی باقی نہ رہی۔

 

حالیہ چند دنوں قبل سپریم کورٹ نے اردو زبان سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوۓ دلچسپ حقائق بیان کیئے۔اور ساتھ ہی فیصلہ بھی کچھ اس طرح دیا کہ لسانی تعصب پسندوں کے منہ پر زور دار طمانچہ بھی لگا۔مہاراشٹر کے ضلع اکولہ کا ایک قصبہ پاتور میں اردو سائن بورڈ لگانے کے خلاف دائر درخواست کو سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر خارج کردیا کہ کسی بھی زبان کا مذہب نہیں ہوتا۔زبان کسی کی بھی جاگیر نہیں۔اردو زبان بھی اسی ملک کی پیدا کردہ ہے۔جو اس ملک کی تہذیب کا بہترین نمونہ ہے۔اردو زبان اس ملک کی ثقافت ہے۔سپریم کورٹ نے مزید برآں کہا کہ اردو زبان سے تعصب اس غلط فہمی پر ہورہا ہے کہ اردو ایک غیر ملکی ہے۔سپریم کورٹ نے لسانی بنیادوں پر سماج کو تقسیم کرنے والے سیاست دانوں کو آئنہ دکھایا کہ اردو زبان اس ملک میں پیدا ہوئی ہے، اور یہیں پلی بڑھی ہے۔بلکہ ہم تو کہیں گے کہ اردو زبان تاقیامت تک اس ملک عزیز میں زندہ رہے گی۔عدالت عالیہ کا یہ تلخ تبصرہ اترپردیش جیسی ریاست جس کو اردو کا مسکن بھی کہا جاسکتا ہے۔لیکن وہیں کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک ماہ قبل اسمبلی میں اردو کے متعلق جہالت سے بھر پور تبصرہ کیا تھا۔وہ اپنی زبان سے اردو کے متعلق زہر اگل رہے تھے جس سے یہ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ انھیں اردو زبان سے کس حد تک بیر ہے۔

 

یوگی آدتیہ ناتھ کو آج کل مسلمان اور اردو کا نام سنتے ہی اس طرح آگ بگولہ ہوجاتے ہیں جیسے مسلمان اس ملک کے دشمن ہیں۔اور شائد یوگی کو اتنی نفرت تو انھیں ماضی کے انگریزوں سے بھی نہیں رہی ہوگی جنھوں نے اس ملک کو کنگال بنایا اور ہندو مسلم میں ایک طرح کی مذہبی آگ لگائی۔ یوگی نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر اردو کو کٹھ ملوں کی زبان کہہ کر نہ صرف توہین آمیز تبصرہ کیا بلکہ اس کی سرکاری حیثیت پر ہی سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ چونکہ اردو اترپردیش کی دوسری سرکاری زبان ہے۔وزیر اعلیٰ نے سماج وادی پارٹی پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اپنے بچوں کو تو انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھائیں گے۔ لیکن دوسروں کے بچوں کو کہیں گے کہ ان کو اردو پڑھاؤ۔ یعنی ان کو مولوی بنانا چاہتے ہیں ۔ ان کو کٹھ ملا بنانا چاہتے ہیں ۔یہ سب اترپردیش میں نہیں ہونے دیا جائے گا۔اب آپ اندازہ لگائیں کہ ایک ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وزیر اعلیٰ اپنے ہی وطن میں پیدا ہونے والی زبان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔محض اس لیئے کہ مسلم اکثریت اس زبان کو استعمال کرتی ہے۔لیکن انھیں کبھی ایسی زبانوں سے گھٹن نہیں ہوتی جو غیر ملکی ہیں۔اہم سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس منصفانہ فیصلے پر یوگی آدتیہ ناتھ کا وہ جملہ کہ اردو کٹھ ملوں کی زبان ہے کا اب کیا ہوگا؟ کیونکہ سپریم کورٹ نے تو کہہ دیا کہ اردو پورے ملک کی زبان ہے۔شائد اب یہ اپنے آپ میں ثابت ہوجاۓ گا کہ کون کٹھ ملا ہے اور کون نہیں ہے۔

 

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جتنے سیاست داں یا دیگر اردو زبان کو جس قدر تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔وہ خود ہی بے تحاشہ اردو زبان کا استعمال کرتے ہیں۔وزیراعظم ہوں یا وزراء یوگی ہو یا ان کے وزراء جب بھی انھیں بناء لفاظی کے طنز کسنا ہوتا ہے تو یہ اردو شاعری کا سہارا لیتے ہیں۔بلکہ بعض دفعہ تو لوک سبھا ہو یا راجیہ سبھا یا کسی ریاست کی اسمبلی میں شاعری کا مقابلہ یا تمثیلی مشاعرے کا منظر لگنے لگتا ہے۔ایک دوسرے پر جواباً طنزیہ انداز میں اردو کے بڑے بڑے شعراء کے اشعار کا سہارا لیا جاتا ہے۔یہی نہیں عدلیہ ہو یا ہندی میڈیا بلکہ انگریزی میڈیا بھی اردو کے اشعار کا استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔اردو کے اس استعمال سے ہر ایک کو خوشی ہوتی ہے۔اس سے ملک کا وقار بھی بڑھے گا۔لیکن تنگ نظر سیاست داں اردو کو تعصب کا نشانہ بناکر سماج میں پھوٹ پیدا کرتے ہیں۔اور اپنی نکمی سیاست چمکانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔آپ نے ایک اور چیز پر بھی غور کیا ہوگا کہ ہر خالص ہندی کہنے والا شخص بھی اردو اور ہندی کی ملاوٹ کے بغیر الفاظ ادا کر ہی نہیں سکتا۔یہ ہندی و اردو کا وہ خوب صورت سنگم ہے جو اس ملک کے ہر شہری کی زبان میں پایا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ پھر اس سنگم کو کیسے مٹایا جاسکتاہے؟

 

اردو زبان سے متعلق سپریم کورٹ کے اس تلخ تبصرے کے بعد اب اس ملک سے لسانی تعصب ختم ہوجانا چاہیئے۔جو سیاست داں اس ملک کی اکثریتی آبادی کو اردو کے متعلق یہ تاثر دیتے ہیں کہ اردو ایک غیر ملکی زبان ہے۔اب وہ یہ تاثر دینے کے بجاۓ اردو سے اٹوٹ وابستگی اختیار کرلیں۔ورنہ پھر اگر وہ اپنی انا اور لسانی تعصبیت کا مظاہرہ کریں گے تو یہ کھلے عام سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کہلاۓ گی۔ویسے ابھی تک یوگی آدتیہ ناتھ ہر معاملہ میں سپریم کورٹ کی بار بار سرزنش پر بھی اپنی ضد پر اور ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوۓ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے رہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں سے منسلک ہر چیز سے سیاست کرنا آج کے دور کے فرقہ پرست سیاست دانوں کا اہم مشغلہ بن گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر فرقہ پرست سیاست داں ہندو مسلم ،مندر مسجد لسانی تعصبیت ہو یا مسلمانوں سے منسلک دیگر چیزوں پر سیاست کرنا چھوڑ یں گے تو وہ کس چیز پر سیاست کریں گے؟یہ سوال بہت غور طلب ہے کیونکہ جو سیاست داں کام کی بناء پر سیاست نہیں کرسکتے وہ فرقہ پرستی کا ہی سہارا لیتے ہیں۔یہ ہر موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔بہر کیف اس ملک کی عوام نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سنا ہے کم از کم اکثریتی عوام ان فرقہ پرست سیاست دانوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔اردو ایک محبت کی زبان ہے۔اس ملک کے ہر شہری کی زبان ہے۔سب مل کر اس سے محبت کا دم بھر کر فرقہ پرست طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔بقول صدا انبالوی؎

اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے

اف سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے

متعلقہ خبریں

Back to top button