جنرل نیوز

جامعہ کے نئے چانسلر کے نام نقی احمد ندوی کا خط

نقی احمد ندوی

محترم سیدنا مفضل سیف الدین داودی دامت برکاتہ جامعہ ملیہ اسلامیہ مولانا محمود حسن دیوبندی، محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبد المجید خواجہ اور ڈاکٹر ذاکرحسین وغیرہ کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ آج جس شکل میں یہ گلستان علم وادب موجود ہے اور آپ جس کے چانسلر بنائے گئے ہیں اس کی آبیاری ہمارے آباء واجداد نے اپنے خون وپسینہ سے کی ہے۔ ہم ہندوستان کے اس عظیم الشان ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چانسلر منتخب ہونے پر آپ کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

ٓآپ نے بوہرہ کمیونٹی کے عالمی پیشوا ہونے کی حیثیت سے جو سماجی، فلاحی، رفاہی اور تعلیمی کارنامے انجام دئیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ آپ نے مصر میں فاطمی سلطنت کے کئی درجن مساجد کو از سرنو زندہ اور آباد کیا، یمن میں حراز پہاڑ کے دامن میں بوہرہ کمیونٹی کو نشہ سے ٓآزاد کرانے میں بھی بہت بڑا رول ادا کیا۔ اس کے علاوہ فیض الموائد البرہانیہ کے نام سے ایک کچن سسٹم قائم کرنے پر آپ کو گلوبل پیس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ دنیا کے کئی ممالک میں آپ کے فلاحی، سماجی،رفاہی اور تعلیمی کاموں کی بھی ستائش ہوتی ہے۔

مگر ہمیں افسوس کے ساتھ یہ عرض کرنا پڑرہا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیوسٹی کے چانسلر بننے کے بعد آپ نے کوئی ایسے اقدامات نہیں کئے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعمیر وترقی میں ایک سنگ میل ثابت ہو۔

ہندوستان میں اقلیتی ادارے بہت کم ہیں، جامعہ اور علی گڑھ ہماری قوم کے لئے کافی نہیں ہے، مگرنئے ادارے قائم کرنے کے بجائے اگر ہم ان اداروں کو بھی فعال اور مفید سے مفید تر بنانے میں کامیاب نہیں ہوتے تو اس سے نہ صرف ملت کا نقصان ہوگا بلکہ ہمارے ملک کا بھی۔ اس تناظر میں ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ بوہرہ کمیونٹی کی خدمت کے ذریعہ جو آپ نے نام پیدا کیا ہے ان اداروں کو بھی ایک نئی جہت اور سمت دینے کی کوشش کریں گے تاکہ آنے والی نسلیں یہ کہ سکیں کہ سیدنا مفضل سیف الدین نہ صرف یہ کہ بوہرہ کمیونٹی کے لیڈر تھے بلکہ بیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے بھی تعلیمی قائد اور سپہ سالار تھے۔

اس موقع پر میں جامعہ نگر میں لڑکیوں کی تعلیم کے مسئلہ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اس علاقے میں مسلم آبادی لاکھوں کی تعداد میں رہتی ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ اس علاقے میں لڑکیوں کے لئے ایک بھی سی بی ایس ای اسکول موجود نہیں ہے۔سرکاری اسکولوں میں مخلوط تعلیم ہوتی ہے۔ جامعہ نے اسی مقصد کی خاطر خاص لڑکیوں کے لئے اسکول کھولا تھا۔ مگر آبادی بڑی ہونے اور اسکول میں صرف چند سو بچیوں کی گنجائش ہونے کی وجہ وہ اسکول کافی نہیں رہا۔ جس کے نتیجہ میں مسلم طالبات کو مخلوط تعلیم والے اسکولوں میں جاناپڑتا ہے۔

اس علاقے کی اس اہم ترین ضرورت کو دیکھتے ہوئے اگر جامعہ لڑکیوں کا ایک بڑا اسکول کھول دے تو ہماری لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ بہت حد تک حل ہوسکتا ہے۔ جامعہ کے پاس سیکڑوں ایکڑ زمین موجود ہے۔ جس میں بیشتر خالی ہے۔ جامعہ اپنے دیگر تعلیمی پروجکٹس کے ساتھ ساتھ بہت آسانی کے ساتھ لڑکیوں کے لئے ایک ایسا اسکول کھولنے کی پوری اہلیت رکھتا ہے یا اپنے گرلس اسکول کو اتنا وسعت دے سکتا ہے جو اس علاقے کی تمام بچیوں کا تعلیمی مسئلہ حل کرسکے۔

ہمیں امید ہے کہ جامعہ نگر کی طالبات کے لئے اس تجویز پر پوری سنجیدگی کے ساتھ آپ نہ صرف غور کریں گے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعہ اس علاقے کی اہم ترین ضرورت کی تکمیل کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔

اب یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ خود کو بوہرہ کمیونٹی کے لیڈر تک محدود کرنا چاہتے ہیں یا ہندوستان کے عظیم الشان اداروں میں مثبت اقدامات کے ذریعہ ملک وملت کی تاریخ میں ایک نیا باب لکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ خدا آپ کا حامی ومددگار ثابت ہو۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button