تلنگانہ

وقف ترمیمی بل مذہبی آزادی پر حملہ، حکومت کی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت احتجاج میں حصہ لیا جائے گا۔ جماعت اسلامی ہند، تلنگانہ

حیدرآباد : وقف ترمیمی بل 2025 کی شدید مخالفت کے باوجود لوک سبھا سے منظوری کو جماعت اسلامی ہند نے مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر کھلا حملہ قرار دیا ہے۔ جماعت نے اس بل کو نہ صرف مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کی بدترین مثال بتایا، بلکہ اسے ایک بدنیتی پر مبنی اور قابلِ مذمت اقدام بھی کہا ہے۔ جماعت نے زور دیا کہ یہ بل آئین کی دفعات 14، 25، 26 اور 29 کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہے۔

 

معاون امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند ، تلنگانہ جناب عبد المجید شعیب نے آج یہاں ایک پریس کلب سوماجی گوڑہ میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ جماعت اسلامی ہند، تلنگانہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کے ساتھ مل کر اس جابرانہ قانون کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج کی حمایت کرے گی اور ہر قانونی، آئینی و جمہوری راستہ اختیار کیا جائے گا تاکہ اس قانون کو واپس لیا جائے۔انہوں نے حکومتِ تلنگانہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بل کے خلاف ریاستی اسمبلی میں قرارداد منظور کرکے اسے مرکز کو روانہ کرے، جیسا کہ تمل ناڈو حکومت نے کیا ہے۔

 

انہوں نہ پر زور لفظوں میں کہا ’’ نیا ترمیمی قانون مسلمانوں کو ان کے مذہبی و دستوری حقِ انتظامِ اوقاف سے محروم کرنے کی کوشش ہے، جب کہ دیگر مذہبی طبقات کو ان کے مذہبی مقامات و اداروں کے مکمل انتظام کا حق حاصل ہے۔ اس ترمیم کے نتیجے میں وقف املاک میں سرکاری مداخلت خطرناک حد تک بڑھ جائے گی، جو کہ آئین ہند کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ دفعہ مذہبی اقلیتوں کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے اور انہیں خود چلانے کا حق دیتی ہے۔‘‘

 

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وقف جائیدادیں ریاستی اثاثے نہیں بلکہ مذہبی اوقاف ہیں۔ بل کی منظوری کے دوران پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے کئی گمراہ کن دلائل پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کو چیریٹی کمشنر کی طرح قرار دینا حقائق کے منافی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ہندو اور سکھ برادری کے اوقاف کے لیے ملک کی مختلف ریاستوں میں علیحدہ قوانین پہلے سے نافذ ہیں۔

 

معاون امیرحلقہ جماعت اسلامی ہند، تلنگانہ نے مسلم عمائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ وقف بورڈ کی ساخت میں جبری تبدیلی، اور اس کے اراکین میں غیر مسلم افراد کو شامل کرنے کی تجویز، دراصل مسلم کمیونٹی سے ان کے مذہبی اور فلاحی اثاثوں کے انتظامی اختیارات چھیننے کے مترادف ہے۔ یہ بل سرکاری افسران کو وقف جائیدادوں میں دخل اندازی کی کھلی چھوٹ دے گا، جس سے ان املاک پر غیر قانونی قبضے کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔

 

اس پریس کانفرنس میں ضیاء الدین نیر صدر تعمیر ملت، ڈاکٹر شیخ عثمان سیکریٹری، عبد النعیم فیضی نائب صدر رحمت عالم کمیٹی، فخر الدین علی احمد سیکریٹری اور زعیم الدین احمد سیکریٹری میڈیا بھی شریک تھے۔

 

عبدالمجید شعیب نے کہا کہ وقف بائے یوزر میں تبدیلی اور نئے اوقاف کی رجسٹریشن کے لیے شرائط کو سخت تر بنا کر واضح طور پر مسلم اداروں کو کمزور کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ اس ترمیمی بل کے نفاذ سے کئی مساجد، مدارس، قبرستان، تعلیمی ادارے اور دیگر مذہبی و فلاحی مقامات زد میں آ سکتے ہیں۔

جماعت اسلامی ہند نے ان سیاسی پارٹیوں پر افسوس کا اظہار کیا جو سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن اس بل کی حمایت کی۔ جماعت نے ان اپوزیشن جماعتوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے بل کی پرزور مخالفت کی۔ ساتھ ہی تمام سیکولر طاقتوں، قانونی ماہرین اور عوامی نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ اس غیر آئینی قانون کو عدالت میں چیلنج کریں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button