اسپشل اسٹوری

فرقانہ فاطمہ ایک مثالی ٹوسٹ ماسٹر                   

کے این واصف، ریاض

“کوہ نور” ریاض کا ایک قدیم ٹوسٹ ماسٹرز کلب ہے۔ کوہ نور ٹوسٹ کلب ریاض نے اب تک اپنے بیسیوں اراکین کو تراش خراش کر ہیرا بنایا۔ اس کی ایک بہترین مثال ٹوسٹ ماسٹرز کی سالانی کانفرنس میں سامنے آئی۔ جب ایک جواں سال خاتون نے “بین الاقوامی تقریری مقابلہ” میں اپنے بیباک انداز، بلا کی خود اعتمادی، پراثر لسان بدنی، بے جھجھک و برملا انداز سے سامعین اور ججس صاحبان کو متاثر کرتے ہوئے مقابلہ مین تیسرا مقام حاصل کیا۔ حاضرین کو اس خاتون کا تیسرا مقام حاصل کرنا بھی اس لئے بڑا لگا کہ ٹوسٹ ماسٹرز مین اس خاتون کی حیثیت ابھی طفل مکتب کی ہے۔

 

اس خاتون کو “کوہ نور ٹوسٹ ماسٹرز کلب” سے جوڑے صرف چند ماہ ہی گزرے ہین۔ گلستان ٹوسٹ ماسٹرز کے اس گل تازہ کا نام مرزا فرقانہ فاطمہ ہے۔ جس نے سالانہ تقریری مقابلون مین اپنی تقریر سے حاضرین کو انگش بدندان کردیا۔ ٹوسٹ ماسٹرز کی سہ روزہ سالانہ کانفرنس کے بعد فرقانہ سے ایک تفصیلی گفتگو کے بعد سامنے آئے حقائق نے تو اور بھی حیرت زدہ کیا۔ مہاراشٹرا کے تاریخی شہر اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والی مسز فرقانہ نے بتایا کہ انھون نے صرف بارھوین کلاس تک ہی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ بھی ضیاء العلوم اردو میڈیم، اسکول اورنگ آباد سے۔

 

انگلش میڈیم کے عام ہوتے اور کاپوریٹ اسکول کے فیشن کے بعد مقامی زبانون مین یا اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے بچون مین احساس کمتری کا عنصر پیدا ہوا۔ یہ بچے عام طور سے اپنے آپ کو مسابقتی دوڑ سے دور رکھنے لگے۔ لیکن فرقانہ کی تربیت اس سے بالا تر رہی۔ ان کی بود و باش میں مڈل کلاس مسلم گھرانوں کی روایتی سختیاں تھیں نہ بہت زیادہ آزاد خیالی۔ فرقانہ نے بتایا کہ ان کے والد (مرحوم)نے اپنے بچوں کے لئے اسلامی اقدار و تہذیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے آزادی کا ایک دائرہ بنا رکھا تھا۔ اسی دائرے میں رہ کر فرقانہ نے بڑے خواب بھی دیکھے اور انھیں شرمندء تعبیر بھی کیا۔ ہونہار فرقانہ نے اسکولی تعلیم کے بعد “آکاشوانی” (ریڈیو) میں جز وقتی اینکر/رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ کچھ عرصہ “دور درشن” سے بھی وابستہ رہیں۔

 

2006 میں محمد صدیق ضیاء الدین سے رشتہ ازدواج میں بندھیں اور اپنے رفیق سفر کے ساتھ دبئی منتقل ہوئیں۔ کہتے ہیں ہر کامیاب انسان کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن فرقانہ کا معاملہ برعکس ہے۔ ان کی کامیابی کے پیچھے ایک مرد کا ہاتھ ہے۔ یعنی محمد صدیق۔ فرقانہ نے بتایا کہ والد کے بعد انھین اپنے شوہر سے بھرپور ہمت افزائی، سہارا، رہبری و رہنمائی حاصل ہوئی۔قابل لحاظ طریقہ سے انگریزی زبان پر عبور نہ رکھتے ہوئے بھی شوہر کی تحریک پر فرقانہ نے دبئی کی ایک کمپنی میں ملازمت کے لئے پیش ہوئیں۔ فرقانہ نے انٹرویو مین صاف کہہ دیا کہ وہ کمپوٹر کے استعمال سے واقف ہیں نہ انگریزی زبان پر عبور رکھتی ہیں۔ کمپنی کا منیجر شاید فرقانہ کی اس “حق گوئی و بے ناکی” سے متاثر ہوئے۔ کہا کہ ہم آپ کو مختصر ٹرینگ دیکر ملازمت کا اہل بنائیں گے۔

 

فرقانہ نے حسب ضرورت کمپوٹر کی نالیج اور انگریزی پر عبور حاصل کیا۔ اور اپنی پہلی ملازمت کا آغاز کیا۔ میاں بیوی دو جسم اور ایک جان ہوتے ہیں۔ محمد صدیق کو ملازمت کے سلسلہ قطر منتقل ہونا پڑا۔ لہذا فرقانہ بھی شوہر کے ساتھ دبئی سے قطر آگئیں۔ گلف میں کام کرنے والے بنجاروں کی زندگی کے سفر میں ایسے موڑ آتے رہتے ہیں۔ نیا ملک، نیا ماحول، نئے ملنے والون سے ہم آہنگی ہونے کے بعد فرقانہ کے ذہن مین کچھ کرنے کی چاہ اور اپنے آپ کو بامقصد مصروفیت سے جوڑ نے کی خواہش کو پورا کرنے فرقانہ نے قطر میں ٹوسٹ ماسٹرز کلب کی رکنیت حاصل کی۔ “دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر”، شاید علامہ اقبال کے کہے اس مصرعہ کی نصیحت کے مطابق سچی لگن اور جستجو نے فرقانہ کو ٹوسٹ ماسٹرز مین اعلی مقام دلا ہی دیا۔

 

سال گزشتہ کے اواخر مین شاہن حیات نے پر پھیلائے۔ پھر ایک اڑان بھری۔ اور شہر ریاض کو منزل بنایا۔ ریاض آکر فرقانہ نے “کوہ نور ٹوسٹ ماسٹرز کلب” کی رکن بنیں۔

ہار ہوتی ہے جب مان لیا جاتا ہے

جیت ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتاہے

شاعر کے اس خیال کو فرقانہ نے حقیقت کا روپ دیا اور ایک مختصر عرصہ مین ٹوسٹ ماسٹرز کے حلقہ مین اپنا مقام پیدا کیا۔ فرقانہ کی یہ کامیابی نئی نسل اور خصوصاُ اردو میڈیم کے طلباء کے قابل تقلید مثال اور مشعل راہ ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button