دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد کے اجتماع سے مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد کے اجتماع سے مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 25اپریل (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج وہ ابنے خطاب میں بتلایا کہ ملک کے پہلگام میں بے قصور شہریوں کو ہلاک کئے جانے کا واقعہ نہایت افسوسناک اور قابل مذمت ہے اس کی وہ جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے، یہ لوگ حیوانات ہیں، بدترین جانوروں سے گری ہوئی حرکت کی ہے، اللہ ان دہشت گردوں کو دنیا و آخرت میں سخت عذاب سے نوازے گا۔ ان ظالموں نے جو 26 لوگوں کی جانیں لی ہیں، ان سے انصاف اسی وقت ہوگا جب ان ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔ ان مجرموں کو عبرتناک سزادی جانی چاہئےہندوستان سب سے بڑا جمہوری اور سیکولر ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے مذہبی آزادی کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے مساوی حقوق ہیں اور سبھی کو ہر طرح کے مواقع حاصل ہیں۔ سبھی شہری مل کر ہندوستان کی تعمیر اورترقی کے لیے کام کرتے ہیں اور آپس میں متحد رہنے ہیں ۔ یہ سب باتیں آئین کی تمہیدو مختلف آرٹیکلس میں تحریر کردی گئیں۔ یہ سارے آرٹیکلس مثلاً 14،15، 16، 19،21، 25 تا30 ہمارے ملک کو ایک مثالی ملک بناتے ہیں اور یہاں تنوع میں اتحاد ہے۔ کی مثالیں دی جاتی رہی ہیں جس کو دنیا کے سبھی ممالک میں سراہا جاتا رہا ہے۔ہندوستان میں ہندوراشٹر کے واسطہ سے ایک عرصہ سے بہت خبریں آتی رہتی ہیں اور بہت سے بیان اس سلسلہ میں آتے رہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہمارا ملک ہندو اکثریتی ملک ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ ایک ہندوراشٹر ہے۔ اس سلسلہ میں ہندوستان کا آئین اور دیگر بہت سے قانون اس بات کو واضح کرتے ہیں۔ یہ ایک سیکولر ملک ہے اور یہی اس کی پہچان ہے اور یہ ایک سیکولر ملک صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ آئین میں یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے، وجہ یہ ہے کہ یہاں کی 2000سال پرانی روایت ہے اور یہاں کی بہت بڑی اکثریت یہی چاہتی ہے اور ہندوستان کے گزشتہ 75برسوں میں ایک رہنے کا راز بھی یہی ہے کہ یہ ایک جمہوری سیکولر ملک رہا ہے۔اس سیکولرازم اور جمہوری نظام کو یہاں کے عوام نے بہت محنت سے پروان چڑھایا ہے اور یہاں کے سیاست دانوں نے بھی اس میں مدد کی ہے اور اہم رول ادا کیا ہے۔ ہمیں اس کو برقرار رکھنا ہے اور اس کو قائم رکھنے کے لیے متحد طور پر کام کرنا ہے۔ جبکہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہندوستان کا مفاد اور ملک کی ترقی ہرگز اس میں نہیں کہ آپس میں لڑتی رہیں بلکہ ہندوستان کا مفاد اسی میں ہے کہ یہاں بسنے والی تمام قو میں اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرا رہتے ہوئے ملکی مفاد اور انسانی معاملات میں ایک دوسرے کا تعاون کریں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کریں۔
بے شک اللہ رب العزت کی انگنت نعمتوں میں سے ایک بے بہار و انمول نعمت اس فانی دنیا میں موجود کہیں میٹھے تو کہیں تیکھے، کہیں نمکین تو کہیں کھٹے لذیذ پھل، سبزیاں اور اناج ہیں۔ یہ تمام انسانی خوراک نہ صرف نسلِ آدم کی بقا کا وسیلہ بنتی ہے بلکہ حضرت انسان کی بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ طاقت و توانائی فراہم کرکے آدم و حوا کی نسل کو تاریخ انسانی کے یادگار کارہائے نمایاں کرنے پر اکساتی ہے۔ قارئین کرام یہ گندم کا دانہ ہی ہے جو اشرف المخلوقات کے بہشت سے ارضِ دنیا تک کے سفر کی کہانی میں اہم کردار کے طور پر نظر آتا ہے۔ لیکن اقبالؒ کے الفاظ میں:
باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
بہشت سے کرہ ارض پر آجانے کے بعد حضرت انسان کے جس ذہانت اور محنتِ شاقہ سے انواع و اقسام کے اناج اور پھل و سبزیاں کاشت کیں اور جس حسنِ ظن سے لذیز پکوان تیار کیے وہ اس امر کی دلیل ہے کہ بے شک اللہ کریم کی نعمتوں کا بہترین شکر یہ ہے کہ عطائے خداوند کو بہترین انداز میں استعمال کیا جائے۔ کرہ ارض پر موجود مختلف ممالک کی خوراک کی پیداوار بھی انواع و اقسام پر مشتمل ہے۔ سرد علاقوں کے پھل اور میوہ جات اپنا الگ ہی انداز رکھتے ہیں۔ گرم ممالک کی فصلوں کی کاشت اور باغات کے پھل اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ سمندری غذا اور گوشت خواہ وہ گائے یا بکرے کا ہو یا پرندوں کا۔ ہر قابلِ خور شے انسان کی بھوک مٹانے اور اسے طاقت ور بنانے میں اپنا فعال کردار ادا کرتی ہے۔ دورِ جدید میں سائنس کی ترقی نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کو نیا روپ رنگ دیا ہے وہاں اشیائے خوردو نوش کی دنیا میں بھی انقلاب بپا کیا ہے۔ پہلے زمانوں میں مخصوص موسم کے پھل، سبزی یا اناج کا انتظار کرنا پڑتا تھا لیکن زراعت کے شعبہ میں ہونے والی جدید سائنسی تحقیق کی بدولت اللہ تعالیٰ کے کرم سے اب ہر موسم میں تقریباً تمام پھل اور سبزیاں مل جاتی ہیں۔ البتہ چند اہلِ ذوق اس پر بھی یہ تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں کہ بے موسم کی سبزیوں اور پھلوں کے میسر آنے سے وہ چاہت اور انتظار کا لطف یاد آتا ہے جو خوش خوراک افراد کی زندگی میں ایک رومانوی کیفیت کا درجہ رکھتا تھا۔
ماضی کے دریچوں میں جھانکیے تو کہیں گرمیوں کی لُو اور تپتی دوپہروں میں ٹھنڈے پانی میں ڈوبے آم رکھے نظر آتے ہیں اور کہیں یخ بستہ سرد شاموں میں باورچی خانہ میں فرائی ہونے والی مچھلی کی دلفریب مہک جاڑے کی سختی کو فراموش کردیتی ہے اور لحاف میں بیٹھ کر مونگ پھلی اور چلغوزے کھانے کا لطف زندگی کے کئی بوجھل لمحوں کی حسین یادوں میں بدل دیتا نظر آتا ہے۔
اگر ہماری خوراک میں ضروری اجزاء نہیں ہوں گے تو ہماری خوراک نامکمل اور جسمانی ضروریات کے لحاظ سے تشنہ ہوگی۔ ایسی نامکمل اور غیر متوازن خوراک اگرچہ پیٹ کی آگ بجھا دیتی ہے لیکن جسمانی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہتی ہے جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان میں بہت سی بیماریاں بہت کم یا بہت زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں، اس کے علاوہ ہم کیا اور کس وقت کھاتے ہیں اس کا اثر ہمارے موڈ پر بھی ہوتا ہے اور اس سے ہماری مشکلات سے نمٹنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو شدید بھوک لگی ہو تو اکثر چڑ چڑا ہونے لگتا ہے اور انسانی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
انسان بھوک کی کیفیت کا شکار ہو تو کام پر توجہ نہیں دے پاتا۔ بعض افراد پریشان ہوں تو اُن کی بھوک ختم ہوجاتی ہے اور کئی افراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ پریشان ہوں تو زیادہ کھانے لگتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بعض افراد پریشانی میں میٹھے کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ یہ رویہ کم وقت کے لیے تو سکون دیتا ہے لیکن اگر زیادہ عرصہ ایسا کیا جائے تو صحت انسانی متاثر ہوجاتی ہے۔ ہم جس قدر اعلیٰ معیاری، متوازن اور غذائیت سے بھرپور غذا کا انتخاب کریں گے اسی قدر ہمارا جسم زیادہ طاقتور، توانا، صحت مند اور مضبوط ہوگا۔ جسم کی مضبوطی و توانائی اور صحت مندی کا تمام تر انحصار متوازن غذا پر ہے۔ متوازن غذا جہاں مدافعتی نظام کو بہتر بناتی ہے وہیں ہماری خارجی شخصیت کا بھی بہترین عکس پیش کرتی ہے۔ اچھی غذا کے اثرات ہماری جلد بالوں اور جسمانی ہئیت پر بھی پڑتے ہیں۔ متوازن غذا سے مراد ایسی غذا ہے جو اضافی کیلوریز سے پاک ہو اور ایسے طریقے سے پکائی گئی ہو جس سے اس کے غذائی اجزا محفوظ رہیں اور وہ نظامِ ہضم کو درہم برہم نہ کرے۔کچی اور تازہ غذائیں اور ایسی غذائیں جنھیں پیسا یا پراسس نہ کیا گیا ہو بلکہ سادہ طریقے سے پکائی گئی ہوں، قدرتی غذائوں میں شمار ہوتی ہیں۔ زیادہ گھی یا تیل میں تلی ہوئی تیز مصالحوں والی غذائیں قدرتی غذا نہیں رہتی اور جسم انسانی کے لیے مفید ہونے کی بجائے نقصان کا باعث بنتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں بار بار ارشاد فرمایا ہے کہ اے انسان! تو ان نعمتوں پر غور کیوں نہیں کرتا جو تیرے مالک نے تجھے عطا کیں؟
بقول شاعر
جانور پیدا ہوئے تیری وفا کے واسطے
کھیتیاں سر سبز ہیں تیری غذا کے واسطے
چاند سورج اور ستارے ہیں ضیا کے واسطے
سب جہاں تیرے لیے پر تو خدا کے واسطے
ذرا غور کریں کہ سورۃ الرحمن کی ہر آیت فبای الاء ربکما تکذبن پر ختم ہوتی ہے یعنی تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے؟
غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان فانی میں ہماری پہلی سانس لینے سے آخری سانس تک اللہ کریم کی ذات رحمان ہم پر نعمتوں کی بارش کیے رکھتی ہے۔ والدین کا سایہ، کھانے پینے کی بہترین نعمتیں، زندگی، شعور، انسانیت، معاشرت، تہذیب، صحت، تعلیم، گھر، روٹی، کپڑا، مکان، بہن بھائی، کنبہ، دوست احباب الغرض بہترین نعمتوں سے ہمیں اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے۔ آسمانوں اور زمین کو ہمارے لیے تسخیر کردیا ہے۔
میں فکر و امن ہستی کا پرستار
میری تسبیح کے دانے زمانے
اللہ کریم نے تمام خزانوں کو اشرف المخلوقات انسان کے لیے عطا فرمادیا۔ اللہ رحمن اور رحیم ہے۔ بلا مزدوری اور بلا معاوضہ اپنی نعمتوں کی اور رحمتوں کی برسات کرتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کسی کو کچھ دیتا ہے تو اس کی ہڈیوں کا گودا تک نچوڑلے۔
ذرا اپنا دل تھامیے اور دیکھئے اس تلخ حقیقت کی جانب جہاں بڑے بڑے ثقافتی مراکز اور شاندار ہوٹلوں میں ثقافت کے نام پر لذیز پکوان پکائے تو جاتے ہیں لیکن ان ہوٹلوں کی دیواروں کے پار کئی ایسی بستیاں ہیں جن میں مائیں آج بھی اپنے بچوں کو اچھا کھانا پکنے کا کبھی نہ سچ ہونے والا جھوٹ بول کر سلاتی ہیں۔
آیئے اور ملیے ان بچوں سے جن کا بچپن بھوک کی نظر ہوجاتا ہے اور جوانی غربت سے جنگ کرتے گزر جاتی ہے کہ کسی نے کیا خوب کہا تھا:
ظلم سہتے ہوئے انسانوں کے اس جنگل میں
کوئی فردا کے تصور سے کہاں تک بہلے
عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا ہے جینا
اک دو دن کی اذیت ہو تو سہہ لے
خوراک کے عالمی دن کو منانے کا خوبصورت انداز یہی ہے کہ ہم زندہ رہنے کے لیے کھائیں نہ کہ کھانے کے لیے زندہ رہیں۔ اللہ کریم ہم کو اپنے پیٹ کے ساتھ ساتھ کسی ضرورت مند کی بھوک مٹانے کی بھی توفیق دے کہ متوازن غذا کا انتخاب بیماریوں سے بچاتا ہے اور اللہ کے بندوں کو کھلایا ہوا کھانا مصیبتوں سے بچاتا ہے۔
نہ جانے کون دعائوں میں یاد رکھتا ہے
میں ڈوبتا ہوں سمندر اچھال دیتا ہے
غذا زندہ رہنے کے لیے توانائی بھی فراہم کرتی ہے اور نشوونما کے لیے ساز و سامان بھی۔ بنیادی طور پر غذا میں چھ چیزیں شامل ہوتی ہیں جو کاربوہائیڈریٹ پروٹین، چربی، وٹامن، نمکیات، پانی ہیں۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اگر صرف پانی میسر ہو تو غذا کے بغیر انسان زیادہ سے زیادہ چالیس دن زندہ رہ سکتا ہے۔
خوراک کے بارے میں عمومی تصور یہ ہے کہ جتنا زیادہ کھایا جائے گا اتنی ہی صحت اچھی رہے گی۔ یہ صرف ادھوری حقیقت ہے۔ اگر ہماری خوراک میں ضروری اجزا نہیں ہوں گے تو ہماری خوراک نامکمل اور جسمانی ضروریات کے لحاظ سے تشنہ ہوگی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، جسم میں رد، بالوں کا گرنا، ہڈیوں کی کمزوری، دانتوں کا کمزور ہوجانا، بدہضمی، بینائی کی کمی، جلد کا خراب ہونا وغیرہ یہ سب نامناسب خوراک کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کو کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، چکنائی، وٹامن، نمکیات اور پانی سب کی ضرورت ہوتی ہے اور جس غذا میں یہ سب موجود ہوں اسی کو متوازن غذا کہتے ہیں۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں رزق حلال عطا فرمائے اور متوازن غذا کے استعمال کی توفیق دے تاکہ ہم صحت مند زندگی گزار کر اپنے عظیم خالق و مالک کا شکر بجا لائیں۔