مضامین

فارغ اوقات کا صحیح مصرف 

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

گذشتہ چند سالوں میں تعلیم کے مسئلہ پر مسلمانوں میں بیدا ری آئی ہے ، کنونٹ ، پرائیوٹ تعلیمی ادارے اور سرکاری اسکولوں میں مسلم بچے بچیوں کا تناسب تیزی سے بڑھا ہے، سہولتیں بھی پیدا ہوئی ہیں ، مکتب اور مدارس میں بھی طلبہ پہونچ رہے ہیں ؛یہ رجوع اس قدر بڑھا ہے کہ بہت سارے مدارس میں طلبہ کا داخلہ جگہ اور وسائل کی قلت کی وجہ سے نہیں ہو پا رہا ہے ، یہی حال معیاری اسکولوں اور کنونٹ کا ہے ، بڑی بڑی رقمیں دینے اور بہت سارے اوقات صرف کرنے اور سفارشوں کے با وجود ، داخلے میں پریشانیوں کا سامنا ہے، ہمارے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒفرمایا کرتے تھے کہ” اب تعلیم کے سلسلے میں معاملہ بے کسی اور بے بسی کا نہیں ہے ، اگر کوئی نہیں پڑھ رہا ہے تو یہ بے حسی ہے، گارجین کی اور ان لوگوں کی جن کی سر پرستی بچوں کو حاصل ہے ۔“

اس خوش کن صورت حال کے با وجود مکاتب اور مدارس کے دائرے سے باہر نکلیے تو ہمارے بچے جن اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، ان میں سے بیش تر میں بنیادی دینی تعلیم کا یا تو نظم ہی نہیں ہے یا ہے تو برائے نام ہے ، دوسرے موضوعات کی طرح اس پر توجہ نہیں ہے ، جس کی وجہ سے ہمارے طلبہ وطالبات بنیادی دینی تعلیم سے دور رہ جاتے ہیں ، اور ان کی دینی زندگی متاثر ہوتی ہے اور وہ بیش تر حالات میں دین سے نا بلد اور عمل سے دور ہو کر زندگی گذارتے ہیں ، اس افسوس ناک صورت حال کا حل یہ ہے کہ ہمارے اسکول اور کنونٹ جو مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جا رہے ہیں ، ان میں بنیادی دینی تعلیم کا مناسب اور معقول انتظام لا زما کیا جائے اور دوسرے موضوعات کی طرح اس پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ وہاں سے نکلنے والے طلبہ دینی تعلیم وتربیت سے پورے طور پر آراستہ ہوں ، جو ادارے دوسروں کے قبضے میں ہیں، ان میں ایسا دباو¿ بنایا جائے کہ وہ مسلم بچوں کے لیے مناسب دینی تعلیم کا نظم کریں ۔

ایک طریقہ حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے یہ بتایا ہے کہ بچوں کے لیے دینی اقامت گاہیں بنائی جائیں، جن میں اسکول کے بعد کا وقت بچے وہاں گذار یں اور کچھ اوقات ان کے لیے مختص کر دیے جائیں کہ ان اوقات میں بچے دینیات پڑھ لیں ، اقامت گاہیں اسلامی تربیت کا بھی مرکز ہوں جن میں بچوں کی نشوونما اسلامی اقدار کے ساتھ کی جائے، اسے ایک زمانہ میں ”گیلانی اقامت گاہ“ کا نام دیا گیا تھا ، یہ شکل صرفہ والی ہے، لیکن اوپر والی دونوں شکلوں سے زیادہ کار آمد ہے، ان دنوں ایک اور شکل مختلف علوم وفنون کے حصول کے لیے رائج ہے اورانتہائی مفید ہے وہ یہ کہ فرصت کے اوقات کا استعمال ”ووکیشنل کورس“ کے لیے کیا جائے اور فرصت کے ایام کو کار آمد بنایا جائے ، یہ کورس دینیات کا بھی چلایا جاسکتا ہے ، اور چند گھنٹوں اور چند ایام میں صحیح تعلیم وتربیت اور نصاب کے ذریعہ مقصد تک پہونچا جا سکتا ہے ، امارت شرعیہ اس سلسلہ میں کافی فکر مند ہے، اور وہ چاہتی ہے کہ اسکول کے ذمہ داراپنے اسکولوں میں ووکیشنل کورس دینیات کا چلائیں ،مدارس اسلامیہ میں کم وبیش دو ماہ کی لانبی تعطیل شعبان ،رمضان میں ہوتی ہے،مدارس کے طلبہ اپنی عبادات کے ساتھ انگریزی ،ہندی وغیرہ کی ابتدائی معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں، اس کام میں گارجین حضرات کی دلچسپی کی بھی ضرورت ہے کہ وہ فرصت کے ایا م واوقات میں اپنے بچوں کو قریب کے مکاتب ،مدارس اور مساجد کے ائمہ کرام اور عصری علوم کے اساتذہ کی خدمت میں بھیجنے کو یقینی بنائیں ،بچے تو بچے ہوتے ہیں ، گارجین حضرات کی دلچسپی نہیں ہوگی تو وہ سارا وقت کھیل کو د میں برباد کردیں گے ، اس کورس میں داخل ہونے سے ان کا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور غیر شعوری طور پر انہیں وقت کی قدر وقیمت کا بھی اندازہ ہو گا ، جس سے وہ آئندہ زندگی میں فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ائمہ حضرات جمعہ کی نماز سے قبل اگر اس موضوع کو اپنی تقریر کا موضوع بنائیں تو یہ منصوبہ تحریک کی شکل اختیار کر سکتا ہے ، ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ جو لوگ اس کام کو کر سکتے ہیں وہ اپنی خدمات رضا کارانہ طور پر ملت کے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے فارغ کریں،ایسے کورسیز کے لیے ایک بڑا سوال نصاب کا ہوتا ہے ، میری رائے ہے کہ دینیات کا بالکل ہلکا پھلکا نصاب اسکولی طلبہ کے لئے رکھا جائے ، بوجھل نصاب طلبہ کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کراپائے گا ،اور اس سےفائدہ اٹھانا دشوار ہوگا۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button