جنرل نیوز

ہر متقی انسان اتحاد پسند بھی ہو گا؛ کیونکہ تقویٰ و اتحاد دونوں حق کا لازمہ ہیں،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

ہر متقی انسان اتحاد پسند بھی ہو گا؛ کیونکہ تقویٰ و اتحاد دونوں حق کا لازمہ ہیں،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

حیدرآباد 21اپریل (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ اس وقت اتحاد، عالمِ اسلام اور مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ ہے اور تمام ضرورتوں و ترجیحات پر برتری اور اہمیت رکھتا ہے۔ ۔ ہمارے علماء اور دانشوروں کا فریضہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اتحاد و یکجہتی کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی اور اعلیٰ اہداف کے حصول نیز سربلندی اور کامیابی میں معجزانہ کردار رکھتا ہے۔ آج اسلام کے دشمن متحد اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ہے۔ قرآن مجید مسلسل لوگوں کی ضمیروں کو جھنجوڑ رہا ہے کہ تم ایک ملت اور ایک ہی دین کیلئے منتخب کئے گئے ہو۔’’(خالقِ کائنات نے ) تمہارے لیے وہی دین مقر ر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور (جو بذریعہ وحی) ہم نے تمہاری طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا ‘‘۔

منافرت – یہودی ہتھکنڈہ: تاریخی حقائِق سے معلوم ہوتا ہے کہ آپس میں اختلاف پیدا کرنا یہود و نصاریٰ کا پرانا طریقہ ہے کیونکہ یہودی حضرت موسیٰؑ کے بعد فرقوں میں بٹ گئے اور عیسا ئی حضرت عیسیٰؑ کے بعد فرقوں میں! قیامت یہ ہے کہ مسلمان، اتنی ہدایتوں کے باوجود حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے، جس کا سبب یہی ہے کہ مسلمان تو ضرور ہیں، لیکن صحیح معنوں میں اسلام و تسلیم کو سمجھے ہی نہیں، اگر سمجھ گئے ہوتے تو اس کے نافذ کردہ قوانین پر عمل پیراں ضرور ہوتے اور اس طرح فرقوں میں نہ بٹتے !اور اس کے قوانین سے ہرگز سرتابی نہ کرتے، اس لیے کہ جب رہبر انسانیت، ہادی برحق سرکار دو عالمؐ، منجی بشریت، محبوب خدا، حضرت محمد مصطفیؐ نے رشتہ اخوتِ میں باندھ دیا تھا تو پھر اس سے فرار کیسا!قریش و انصار جو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے جب ان میں حضور دو عالمؐ نے محبت و الفت پیدا کر دی تو پھر ہمارے درمیان افتراق کیسا؟ہمارا تو کبھی دشمنی کا سابقہ ہی نہیں رہا! ہم تو شروع سے ہی ایک دوسرے کے معاون و مددگار رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ ’’ اتحاد‘‘ ایسی شئے ہے کہ نہ فقط عالم انسانیت سے بلکہ اگراسے پوری کائنات سے چھین لیا جائے تواس و سیع عالَم کا نظام منٹوں میں درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ آپس میں اختلاف پیدا کرنا گویا ایک شخص کا زہر کو کھا لینے کی مانند ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ زہر کشندہ ہے اور جسم کے اعضاء کو پارہ پارہ کر دیتا ہے یادوسری مثال بجلی کی ہے، ہر عاقل انسان اس سے واقف ہے، کبھی غلطی سے بھی اسے ہاتھ نہیں لگاتا کہ ہاتھ لگاتے ہی یہ پٹخ دیتی ہے، اس کے باوجود اگر کوئی اسے چھوئے تو لامحالہ اسے اس کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا۔ اسی طرح مسلمان یا تو اسلام و اتحاد سے واقف نہیں یا پھر واقف ہونے کے باوجود کسی خاص غرض جیسے بغض و عناد، کفر و نفاق، جاہ و منصب طلبی کے پیشِ نظر اسلام دشمن عناصر کی دسیسہ کاریوں میں مبتلا ہو جا تے ہیں اور آیات و روایات کے پیغام سے سر تابی اور غفلت برتتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان انتشار و افتراق کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ وہ قرآن کی تلاوت تو کرتے ہیں لیکن اس کی حقیقت ان کے دلوں میں رسوخ نہیں کرتی اوراس کی نورانیت ان کے قلوب کو جلا نہیں بخشتی۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن مجید جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، انسان کو ہر بے راہ روی سے روکتا ہے، خوف خدا ایجاد کرتا ہے، انسان کے مادی و معنوی مسائل کو حل کرتا ہے، پر ایمان رکھنے کے باوجود کوئی اتحاد سے غافل رہے۔ واضح رہے کہ اسلام کی اصل عقلی اور فکری ہونے کے ساتھ ساتھ عملی بھی ہے۔ چنانچہ صرف وہی عقیدہ اسلامی اہداف کی تکمیل کرتا ہے جو عمل کے ہمراہ ہو ورنہ محض عقیدہ جو عمل سے عاری ہو، انسان کو ہدایت سے سر شار نہیں کر سکتا۔

تقویٰ و برادری (اخوت)دو ایسے اصول ہیں جن کی پیروی میں امت مسلمہ کی نجات مضمر ہے، ہر متقی انسان اتحاد پسند بھی ہو گا؛ کیونکہ تقویٰ و اتحاد دونوں حق کا لازمہ ہیں اور افتراق کا تعلق باطل سے ہے۔ ان دو چیزوں (تقویٰ و اخوت )سے انحراف کرنا گمراہی، ضلالت، ذلت، رسوائی، خونریزی، پراگندگی، تفرقہ بندی، ایک دوسرے پر تہمت و الزام تراشی وغیرہ میں مبتلا کر سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button