جنرل نیوز

تلنگانہ کا تحفظ اور ترقی بی آر ایس کے ذریعہ ہی ممکن

تلنگانہ کا تحفظ اور ترقی بی آر ایس کے ذریعہ ہی ممکن

کارکنان کے مسائل کا حل میری اولین ذمہ داری

دھوکہ اور فریب کانگریس کا وطیرہ

*کھمم میں 3 وزراء ہونے کے باوجود تین پیسے کا فائدہ نہیں*

 

*بھدراچلم میں بی آر ایس پارٹی کا اجلاس۔ رکن قانون ساز کونسل کلواکنٹلہ کویتا کا خطاب*

 

 

بھدراچلم:بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) کے زیر اہتمام بھدراچلم میں کارکنان اور مجاہدین تلنگانہ تحریک کےایک پرجوش اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا۔ رکن قانون ساز کونسل و صدر تلنگانہ جاگروتی کلواکنٹلہ کویتا نے خطاب کرتے ہوئے بی آر ایس پارٹی کی عوامی خدمات، تلنگانہ کی بقا اور کانگریس حکومت کی ناکامیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ کویتا نے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں کہا کہ وہ ہمیشہ کے سی آر اور پارٹی کارکنان کے ساتھ کھڑی رہیں گی اور کارکنان کے مسائل کو براہِ راست کے سی آرتک پہنچانا ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کارکنان جب چاہیں، کسی بھی مسئلہ میں ان سے رجوع ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں کارکنوں کو تحفظ کی فراہمی اپنا فرض سمجھتی ہوں۔بی آر ایس لیڈر نے واضح الفاظ میں کہا کہ بی آر ایس پارٹی تلنگانہ کے تحفظ کی واحد ضامن ہے اور ریاست کو کانگریس سے بچانا ہر کارکن کی اولین ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کو بچانا بی آر ایس کے ہر کارکن کا پہلا فریضہ ہے۔ کانگریس سے تلنگانہ کو بچانے کی ذمہ داری صرف بی آر ایس پارٹی ہی ادا کر سکتی ہے۔

انہوں نے کانگریس حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ کھمم جیسے ضلع سے تین وزراء ہونے کے باوجود عوام کو تین پیسے کا بھی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ’آتمیہ بھروسہ‘ کے نام پر غریبوں کو رقم دینے کے بجائے انہیں صرف دھوکہ دیا گیا۔ کویتا نے عوام سے اپیل کی کہ اگر اب خاموشی اختیار کی گئی تو تلنگانہ کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ انہوں نے نائب وزیر اعلیٰ ملوبھٹی وکرامارکا کے بیانات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا اورکہا کہ وہ قرض سے متعلق بے بنیاد باتیں پھیلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ2004 میں مردہ کانگریس پارٹی نے بی آر ایس کے ساتھ اتحاد کرکے اقتدار حاصل کیا لیکن ریاست تلنگانہ دینے کے وعدہ کے باوجود عوام کو 10 سال تک رُلایا گیا۔ سینکڑوں نوجوانوں کی قربانیوں کے بعد تلنگانہ حاصل ہوا۔ کویتا نے حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار بھی کیا کہ160,000 کروڑ روپئے کا قرض لینے کے باوجود رعیتو بھروسہ اور قرض معافی کہاں گئی؟۔60 فیصد کسان آج بھی قرض معافی سے محروم ہیں۔40 ہزار کروڑ کی اراضیات صرف 10 ہزار کروڑ میں لیز پر دے دی گئیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟انہوں نے کہا کہ موجودہ کانگریس حکومت نام کے لئے تو تلنگانہ کی ہےلیکن کام تلنگانہ کے خلاف کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ 16 ماہ کا عرصہ گزرجانے کے باوجود کانگریس نے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ کویتا نے سابق وزیر اعلیٰ کے سی آر کی بے لوث خدمات کو یاد کیا اور کہا کہ تلنگانہ کو ہر شعبہ میں نمبر ون بنانے کا سہرا صرف کے سی آر کے سر جاتا ہے۔ وہ دن رات ریاست کی ترقی کے لئے کوشاں رہے۔انہوں نے سیثارام پراجیکٹ کی مثال دی اور کہا کہ اس منصوبہ کے تحت 3.5 لاکھ ایکڑ زمین کو پانی فراہم کیا گیا جو کے سی آر کی دور اندیشی کا ثبوت ہے۔انہوں نے کہا کہ بی آر ایس ہی اصل ‘سری رام رکشھا’ ہے جو تلنگانہ کی حفاظت کر سکتی ہے۔انہوں نے تلنگانہ تحریک کی ابتدا کھمم ضلع سے ہونے کی یاد دہانی کروائی اور کہا کہ اب ایک بار پھر اسی ضلع کو تحریک کا مرکز بنانا ہوگا۔بھدراچلم کے موجودہ رکن اسمبلی وینکٹ راؤ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کویتا نے کہا کہ وہ بی آر ایس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئےاور پھر کانگریس میں شامل ہو کر عوام کو دھوکہ دیا۔آخر میں انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بی آر ایس کارکنان غفلت برتیں گے تو کانگریس تلنگانہ کو پیچھے لے جائے گی۔انہوں نے کے سی آر کےقول اعادہ کرتےہوئے کہا کہ”اگر دھوکہ کھاؤ گے تو تکلیف ضرور ہوگی اور دھوکہ دینا کانگریس کی فطرت ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button