نیشنل

زبان کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک سماجی اور ثقافتی شناخت ہے : اردو کے استعمال کے خلاف دائر درخواست پر سپریم کورٹ کا ریمارک

نئی دہلی –  سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کہا کہ "زبان کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک سماجی اور ثقافتی شناخت ہے”۔ مہاراشٹر کے اکولا ضلع کی سابق کونسلر ورشا تائی سنجے بگاڑے کی طرف سے اردو زبان کو سائن بورڈز پر استعمال کرنے کے خلاف دائر کی گئی درخواست کو عدالتِ عظمیٰ نے مسترد کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔

 

درخواست گزار کا مطالبہ تھا کہ میونسپل کونسل کی حدود میں صرف مراٹھی زبان کو سائن بورڈز پر استعمال کیا جائے اور اردو کے استعمال کی اجازت نہ دی جائے۔ ان کی عرضی پہلے میونسپل کونسل اور بعد ازاں بمبئی ہائی کورٹ میں مسترد ہو چکی تھی، جس کے بعد وہ سپریم کورٹ پہنچی تھیں۔

 

جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے. ونود چندرن پر مشتمل بینچ نے واضح طور پر کہا کہ  زبان کسی مذہب سے تعلق رکھنے والی چیز نہیں بلکہ یہ ایک سماج، علاقے اور عوام کی تہذیب اور ترقی کی عکاسی کرتی ہے۔ اردو زبان کے بارے میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔

 

عدالت نے کہا کہ اگر کسی علاقے میں زیادہ تر لوگ اردو سمجھتے ہیں تو مقامی بلدیہ کا فرض ہے کہ وہ مؤثر رابطے کے لئے اسی زبان کو  استعمال کرے۔

 

سپریم کورٹ نے بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ 2022 کے قانون یا کسی اور قانون میں اردو زبان کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے، اس لئے پٹیشن کو خارج کیا جاتا ہے۔

 

یہ فیصلہ زبان کو مذہب سے جوڑنے کی کوششوں کے خلاف ایک مضبوط پیغام سمجھا جا رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button