مزاح، زندہ دلی و خوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے،شرعی کونسل کی نشست سے خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کی شرعی رہنمائی

مزاح، زندہ دلی و خوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے،شرعی کونسل کی نشست سے خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کی شرعی رہنمائی
حیدرآباد 11جون (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے شرعی رہنمائی کونسل کے دوران ایک سائل نے سوال کیا کہ میں شک، وہم اور وسوسوں کا مریض ہوں۔ ایک بات جسے میں بہت زیادہ سوچتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایسے تمام مسلمان، ہندو اور دیگر غیر مسلم افراد جنہیں میں نے میرے بچپن میں یا پھر میرے بلوغت کے بعد جوانی میں بھی اپنے ہنسی مذاق، کھیل اور شرارت کی نیت سے تنگ کیا تھا تو اس وجہ سے اگر ان تمام افراد میں سے کسی بھی شخص کو میری شرارت سے کوئی دکھ پہنچا ہو یا چوٹ لگ گئی ہو تو اس دکھ اور چوٹ کی وجہ سے وہ شخص بیمار ہو گیا ہو اور اسی بیماری سے وہ شخص طبعی قدرتی طور پر انتقال کر گیا ہو فوت ہوگیا ہو تو کیا بروز قیامت میں ایسے افراد کی موت کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاؤں گا؟ مفتی صاحب پلیز یہ ضرور بتائیں کیونکہ مجھے ان افراد کی موت کے بارے میں بہت وسوسے آتے ہیں۔ مجھے گناہوں سے بہت ڈر لگتا ہے اسی لیے میں اپنی ان تمام شرارتوں پر سوچتا ہوں جو میں نے لوگوں کے ساتھ کی ہیں۔ براہ مہربانی مفتی صاحب میری رہنمائی کرتے ہوئے مجھے میرے سوال کا جواب دیجئے۔ آپکا بہت شکریہ
خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے اس سوال کا شرعی رہنمائی کا جواب اس طرح عنایت کیا کہ دینِ ا کے اسسلام فطری دین ہے، جس نے انسان کی فطری خواہش کے عین مطابق حدود و قیود کے ساتھ ہنسی مزاح کی اجازت دی ہے۔ مزاح، زندہ دلی و خوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہو جانا نازیبا اور مضر ہے، اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک بنا دیتا ہے۔ بسا اوقات ہمجولیوں اور ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لیے بےپناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ مزاح انسانی فطرت کا لازمہ ہے اور اس کے جواز پر بےشمار دلائل موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی مزاح فرماتے تھے لیکن آپ کا مزاح بھی ایسا ہوتا کہ جس میں نا تو جھوٹ ہوتا تھا اور نا اس سے کسی کی دل آزاری ہوتی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ مختلف مواقع پر آپ نے خوش طبعی اور مزاح فرمایا ہے، خشک مزاجی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہیں تھی، آپ نہیں چاہتے تھے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے مزاج و طبیعت کو ہمیشہ خشک اور بے لذّت بنائے رکھیں۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھار اپنے جاں نثاروں اور نیاز مندوں سے مزاح فرماتے تھے اور یہ ان کے ساتھ آپ کی نہایت لذت بخش شفقت ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاح بھی نہایت لطیف اور حکیمانہ ہوتا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہم سے مزاح بھی فرماتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں۔لیکن سوال مسؤولہ کیونکہ مزاح کے جواز و عدمِ جواز کے بارے میں نہیں بلکہ اس کی حدود کے متعلق ہے اس لیے اسی کا جواب زیرِ بحث لاتے ہیں۔قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔الْحُجُرَات، 49: 11
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزاح کے آداب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
اپنے بھائی کو ہنسی مذاق کر کے ناراض نہ کرو اور اسے اذیت نہ دو، اور نہ اس سے وعدہ کر کے وعدہ خلافی کرو۔
درج بالا آیت و روایت سے معلوم ہوا کہ ایسی دل لگی اور مزاح جس میں کسی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا کوئی پہلو نہ ہو اور نہ اس کی نیت ہو تو شریعت میں تفریح طبع کے طور پر اس کی اجازت ہے۔ اس کے برعکس ایسا مزاح جس میں طنز کرنے، مذاق اڑانے، عزتِ نفس مجروح کرنے، فحش گالیاں دینے، فحش گوئی کرنے وغیرہ کی پہلو شامل ہوں‘ شرعِ اسلامی میں ممانعت ہے اور اس کا مرتکب گناہگار ہے۔ اگر کوئی شخص درج بالا ممنوع امور کا مرتکب ہوا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے، اس کے مزاح سے جن لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے اگر وہ زندہ ہیں تو ان سے بھی معافی مانگی جائے اور ان میں سے جو فوت ہو چکے ہیں ان کا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دے۔ آئندہ ایسے مزاح سے اجتناب کرے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔دوسرا سوال میں اپنے 6 دوستوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتا ہوں جس میں سب لڑکے ہی ہیں۔ ان لڑکوں میں سے دو لڑکے تھوڑے زیادہ صحت مند ہے اور چھاتی عورت نما ہے۔ ہم کچھ دوست تفریح اور شغل کے لیے اُن کی چھاتی دبا دیتے ہیں۔ کیا ہم اس کی وجہ سے گناہ کا ارتکاب تو نہیں کرتے؟ شرعی رہنمائی کرتے اس طرح جواب عنایت کیا صورتِ مسئولہ میں دوستوں کا آپس میں بے تکلف ہونا، ہنسی مذاق کرنا تو درست ہے۔ البتہ ہنسی مذاق اور تفریح کے موقع پر بھی ایسے افعال سے اجتناب کرنا چاہیے جو دوسرے ساتھیوں کی عزت نفس کے منافی ہوں؛ لہذا ہنسی مذاق کے وقت بھی ایسے معصیت والے افعال کے ارتکاب سے اجتناب کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم
حد سے زیادہ ہنسی مذاق برا اور ممنوع ہے مگر تھوڑا سا مذاق کرنے میں مضائقہ نہیں۔ بعض اکابر کا قول ہے کہ مزاح سے عقل سلب ہوجاتی ہے اور دوست الگ ہوجاتے ہیں۔یوسف بن اسباط کہتے ہیں: حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین برس تک نہ ہنسے۔ حضرت عطا سلمی چالیس برس تک نہ ہنسے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جو گناہ کرکے ہنستا ہے وہ دوزخ میں روتا ہے۔حضرت محمد بن مکند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: میری ماں نے مجھے نصیحت کی کہ لڑکوں سے ہنسی مذاق نہ کرنا ورنہ تو ان کی نظروں میں بے قدر ہوجائے گا۔حضرت سعد بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: آپ نے اپنے بیٹے کو فرمایا کہ شریف آدمی سے ہنسی نہ کرنا کہ تجھ سے وہ دشمنی کرے گا اور کمینے سے ہنسی بھی نہ کرنا، وہ تجھ پرجرات کرنے لگے گا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: اللہ سے ڈرو اور ہنسی سے کوسوں دور بھاگو۔ اس سے کینہ بڑھتا ہے اور انجام برا ہوتا ہے۔ قرآن کی تلاوت کیا کرو۔ اگر گراں معلوم ہو تو اولیاء کے حالات بیان کیا کرو۔
آج صوفیاء اس برائی سے بچنے کی تلقین فرمارہے ہیں تاکہ ہم کسی کی دل آزاری نہ کریں اور معاشرے میں پُرسکون ماحول قائم رہے۔
زبان وعدہ کے لئے ایک پیش قدمی کرتی ہے مگر نفس پر پورا کرنا ناگوار ہوتا ہے تو یہ وعدہ جھوٹا ہوجاتا ہے اور یہ نفاق کی علامت ہے۔ دور حاضر میں نوجوان نسل کے اندر جھوٹے وعدے کی عادت بڑھتی جارہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ.
’’اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو‘‘۔
(المائدة: 1)
حضرت جنید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
’’ایک دفعہ آپ سے کسی نے ایک جگہ پہنچنے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ شخص بھولے سے وہاں بائیس دن نہ آیامگر آپ اس کے انتظار میں وہاں اس کا انتظار کرتے رہے‘‘۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
’’آپ سے کسی نے دریافت کیا کہ اگر کوئی شخص کسی سے وعدہ کرے اور وعدہ پر نہ آئے تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا کہ یہاں تک انتظار کرے کہ نماز آئندہ کا وقت آجائے‘‘۔
آج نوجوان نسل اس عادت کا شکار ہوتی جارہی ہے اور ان اقوال کی روشنی میں نوجوانوں کو اس بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔
انسان کے سارے اخلاق میں سب سے زیادہ بری اور مذموم عادت جھوٹ کی ہے۔ امر واقعہ کے خلاف کسی قول و فعل کو جھوٹ کہتے ہیں۔ جھوٹ خواہ زبان سے بولا جائے یا عمل سے ظاہر کیا جائے یہ بری عادت ہے۔ ہمارے تمام اعمال کی بنیاد اس پر ہے کہ وہ واقعہ کے مطابق ہوں جبکہ جھوٹ اس کی ضد ہے کیونکہ یہ برائی کی ہر قسم کی قولی اور عملی برائیوں کی جڑ ہے۔ جھوٹ بولنا عیب فاحش اور گناہ عظیم ہے۔ جس کی مذمت قرآن میں اس طرح موجود ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:الکذب ينقص الرزق.’’جھوٹ کم کرتا ہے روزی کو‘‘۔
ہمارے اسلاف جھوٹ کی مذمت کرتے تھے اور کلیۃً پرہیز کرتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:’’اللہ کے نزدیک بڑی خطا جھوٹی زبان ہے اور سب سے بڑی قیامت کے دن پشیمانی ہے‘‘۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’جب سے مجھے پاجامہ باندھنے کی تمیز ہوئی، میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘‘۔
حضرت خالد بن صبیح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’آپ سے کسی نے پوچھا کہ ایک دفعہ کے جھوٹ سے بھی آدمی جھوٹا کہلاتا ہے، آپ نے فرمایا: ہاں۔ولید بن عبدالملک فرماتے ہیں:
’’ایک بار حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ولید بن عبدالملک سے کچھ کہا۔ اس نے کہا کہ آپ جھوٹ کہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ بخدا جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ جھوٹ سے جھوٹے آدمی کو عیب لگتا ہے، تب سے میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘‘۔حضرت مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی چیز کو ہمارا دل چاہتا ہو اور ہم کہہ دیں کہ بھوک نہیں کیا یہ بھی جھوٹ ہے؟ آپ نے فرمایا: جھوٹ جھوٹ ہی لکھا جاتا ہے حتی کہ اگر تھوڑا سا جھوٹ ہوگا تو وہ تھوڑا لکھا جائے گا۔ ان احوال و اقوال صوفیانہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کس قدر اس بیماری سے نجات حاصل کی اور کس عمر میں جھوٹ کو ترک کردیا ۔ اللہ تعالیٰ نوجوان نسل کو بھی اس بری بیماری سے نجات دلائے